Maktaba Wahhabi

46 - 153
اگر کوئی مسلمان کسی ایک رکن اسلام کا انکار تو نہ کرے لیکن سُستی کی وجہ سے صرف کوتاہی کرے،آیا ایسا شخص کافر ہے یا نہیں ؟ علماء کی اس بارے میں مختلف آراء ہیں۔ صرف توحید و رسالت سے انکار کی صورت میں علماء کرام کی متفقہ رائے ہے کہ ایسا شخص کافرہے۔ ہمارا مؤقف بھی یہی ہے کہ صرف یہ شخص کافر ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو عقائد اسلامی پوری طرح سمجھائے جائیں لیکن پھر بھی وہ انکار کر دے۔ اس مسئلے میں ہمارا مؤقف اور ہمارے مخالفین کی رائے درج ذیل صورتوں میں سمجھی جا سکتی ہے: 1۔ جسے یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین توحید ہے نیز اسے یہ بھی سمجھ ہو کہ قبروں، پتھروں اور درختوں کے متعلق جو عام لوگوں کے عقائد ہیں وہ شرک پر مبنی ہیں اور ایسے اعمال سے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، پھر یہ جرائم اس قدر سنگین ہیں کہ دین الٰہی کے قیام کے لیے ایسے مجرموں سے جنگ کرنے کا حکم ہے۔ ان تمام باتوں سے واقف آدمی عقائد کے جملہ مسائل نہ سیکھتا ہے اور نہ اس کے مطابق اپنے اعمال کی اصلاح کرتا ہے بلکہ وہ شرک پر قائم رہتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے، اسی بنا پر اس سے لڑائی کی جائے گی۔ کیوں کہ اس نے دین الٰہی سمجھنے کے باوجود اختیار نہیں کیا نیز شرک کی قباحت بھی جاننے کے باوجود اس سے اجتناب نہ کیا۔ اگر چہ وہ شخص اسلام اورمسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور شرک کو اچھا سمجھ کر لوگوں کے سامنے اس کا اظہار بھی نہیں کرتا پھر بھی ایسا شخص مجرم ہے۔ 2۔ ایک آدمی توحید کے تقاضوں کو پہچانتا ہے اور اسلامی احکام پر عمل پیرا ہے لیکن دین محمدی کے بعض کاموں کا غلط انداز میں تذکرہ کرتا ہے، ملحدوگمراہ لوگوں کی تعریف و توصیف کرتا ہے،نیز موحد اہل اسلام کو ان گمراہوں سے کم تر سمجھتا ہے!ایسا شخص پہلے کی نسبت زیادہ بد تر ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْن
Flag Counter