Maktaba Wahhabi

73 - 153
اور کہنے لگا کہ یہ بات کہاں ہے؟ عالم دین نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ کر سنا دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾(الانبیائ:7) ’’پوچھو تم واقف کاروں سے اگر تم لاعلم ہو۔‘‘ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر چیز کا علم حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ جو اس علم سے واقف ہیں ان سے سوال کیا جائے۔ قرآن مجید کا مقصد اور مطلوب بھی یہی ہے کہ جو شخص ناواقف اور لاعلم ہے وہ اہلِ علم اور واقف لوگوں سے پوچھ لے۔ مشرک یا گمراہ جو دلیل پیش کرے گا اگر موحد غورو فکر کرے تو قرآن مجید میں ہی اس کا جواب موجود ہوگا بلکہ دوسری صورت میں اگر کوئی قرآن مجید سے یا کتاب و سنت کی صحیح روایات اپنے غلط عقائد کے اثبات کے لیے سنائے گا تو یہ دلیل اس کے اپنے حق میں ہونے کی بجائے اس کی مخالفت میں ہوگی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جو بدعتی اپنے غلط نظریے کے لیے کتاب و سنت سے صحیح دلائل پیش کرے تو یہ دلیل دراصل اس کے حق میں ہونے کی بجائے اس کے خلاف ہوگی اس کی موافقت میں نہ ہوگی۔ ‘‘ فاضل مؤلف رحمہ اللہ اس آیت کریمہ سے یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ موحد آدمی کے پاس جو دلیل ہے وہ زیادہ عمدہ اور زیادہ واضح ہے جبکہ اس کے مد مقابل کے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل نہ ہوگی،کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَا یَأْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰٰکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا ’’یہ لوگ تمہارے سامنے جو مثال بھی پیش کریں گے ہم اس موقع پر آپ کے لیے سچ بات اور اس سے اچھی تفسیر لے آئیں گے۔ ‘‘ یعنی آپ کے دلائل ان کی نسبت زیادہ مضبوط، قوی، واضح اور دو ٹوک ہوں گے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اعتراضات کے ساتھ ساتھ
Flag Counter