Maktaba Wahhabi

78 - 153
اختیار کریں کہ پہلے مختصر جواب دیں جو ان کے تمام قسم کے فریب و شبہات کا احاطہ کرتاہو۔پھر ہر مسئلے اور اس کے ہر جزو کا تفصیل سے جواب دیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ﴿کِتَابٌ اُحْکِمَتْ اٰیَاتُہ‘ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ (ہود:1) ’’یہ کتاب ہے اس کی آیات محکم ہیں پھر حکمت والے خبردار کی طرف سے اس کی تفسیر بھی کر دی گئی ہے۔ ‘‘ مختصر جواب کے سلسلے میں فاضل مؤلف فرماتے ہیں کہ یہ لوگ عام طور پر ایسی آیات پیش کریں گے جن کے بارے میں مسلّم ہے کہ یہ متشابہ ہیں اور یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں ٹیڑھ پن ہو اور وہ غلط راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا آیت(آل عمران: 8) کی تفسیر میں یہی بات فرمائی ہے،چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے انہیں مختلف مسائل پر اعتراضات کی عادت ہوتی ہے،ایسے لوگ متشابہ آیات پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت کو غلط بات کے ساتھ اس طرح خلط ملط کر دیا جائے کہ لوگ اس کی حقیقت سے ناواقف ہو جائیں اور آپ اپنے عقیدے پر سوچنے لگیں کہ آیا یہ درست ہے بھی یا نہیں ؟ اس طرح کا ایک واقعہ نافع بن ازرق اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مابین پیش آیا۔ اسے امام سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ یہ واقعہ اپنے مضمون کے اعتبار سے نہایت مفید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جو شخص قرآن مجید یا احادیثِ نبویہ میں سے متشابہ آیات و احادیث کو تلاش کرکے اپنے مؤقف کے اثبات میں پیش کرتا ہے تو اس کے متعلق ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ الفاظ فرمائے ہیں:’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ پن ہے۔‘‘
Flag Counter