Maktaba Wahhabi

41 - 96
پھر اس روایت میں سائب بن یزید سے محمد بن یوسف اور ابن خصیفہ دوو راوی روایت بیان کر رہے ہیں اور ان دونوں کا بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے، محمد بن یوسف گیارہ رکعات بیان کرتے ہیں جبکہ ابن خصیفہ اکیس رکعات ۔ اور ان دونوں میں سے محمد بن یوسف کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی کیونکہ وہ ابن خصیفہ سے زیادہ ثقہ ہیں ،چنانچہ حافظ ابن حجر نے محمد بن یوسف کو ثقہ ثَبْت لکھا ہے اور ابن خصیفہ کو صرف ثقہ ۔ اس وضاحت کے پیشِ نظر گیارہ رکعات والی روایت کو ہی ترجیح ہوگی جیسا کہ اصولِ حدیث کے علمِ شریف کو جاننے والے کسی شخص سے یہ بات مخفی نہیں ہے ۔ دوسری علّت : اس اثر کو ضعیف بنانے والا دوسرا سبب یا علّت یہ ہے کہ ابن خصیفہ کی روایت میں گنتی کے یقین کے لحاظ سے اضطراب پایا جاتا ہے ،وہ سائب بن یزید سے کبھی گیارہ رکعات ذکر کرتے ہیں اور کبھی اکیس اور اکیس کے ذکر کے ساتھ حَسِبْتُ (میرا خیال ہے ) کہتے ہیں، لہٰذا اس روایت میں اکیس کا ذکر گیارہ رکعتوں والی حدیث کے خلاف ہے اور حَسِبْتُ کے لفظ کا استعمال ابن خصیفہ کے اضطراب پر دلالت کرتا ہے ،خصوصاً جبکہ انھیں اس عدد پر یقین نہیں بلکہ اسکا ذکر وہ بصورتِ ظن کرتے ہیں، لہٰذا عدمِ تیقّن کے پیشِ نظر یہ اثر ساقط الاعتبار ہوگا ، اور پھر جب یہ راوی اپنے سے زیادہ قوّیُ الحفظ (احْفَظْ) کی مخالفت کر رہا ہے تو اس صورت میں اس اثر کا قابل حجّتِ ہونا محلِّ نظر ہوگا ۔ تیسری علّت : محمد بن یوسف ،سائب بن یزید کے بھانجے ہیں ، اس قرابت و رشتہ داری کے پیش نظر وہ اپنے ماموں کی روایت کو کسی بھی دوسرے راوی سے زیادہ جانتے ہیں لہٰذا جس عدد کو انھوں نے بیان کیا ہے اسے ہی ترجیح ہوگی ۔ نیز یہ اثر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی مرفوع حدیث کے بھی موافق ہے ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کو سنّت کی مطابقت والی صورت میں لینا ہی زیادہ مناسب ہے بہ نسبت اسکے کہ
Flag Counter