Maktaba Wahhabi

58 - 96
راہ پانے سے روکا جاسکے ، اور وہ بات یہ ہے کہ رسالہ مذکورہ کے صفحہ: (5)پر ابو داؤد شریف کے حوالے سے ایک حدیث کے الفاظ یُوں نقل کیٔے گئے ہیں : (عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ جَمَعَ النَّاسَ عَلیٰ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فَکَانَ یُصَلِّيْ لَھُمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً )۔ بحوالہ ہفت روزہ الاسلام لاہور جلد ۱۶ شمارہ ۴۲ بابت ۱۸ شعبان ۱۴۱۰ ؁ھ بمطابق ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ ء؁ ۔ ’’حضرت حسن بصری رحمہٗ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت اُبی ّ ّبن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر اکٹھے کیا اور وہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھاتے تھے ‘‘ ۔ یہ ہے مصنفِ رسالہ کی عبارت، اس میں خط کشیدہ لفظ یعنی [رَکْعَۃً]غلط ہے صحیح لفظ [لَیْلَۃً]ہے ، یعنی ابو داؤد شریف کی حدیث کے اصل الفاظ یوں ہیں : (عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ جَمَعَ النَّاسَ عَلیٰ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فَکَانَ یُصَلِّی لَھُمْ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَلَا یَقْنُتُ بِھِمْ اِلاَّ فِيْ النِّصْفِ الْبَاقِيْ، فَاِذَا کَانَتِ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّیٰ فِيْ بَیْتِہٖ فَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ اَبِقَ أُبَيُّ) ابو داؤد ’’ حضرت حسن بصری رحمہٗ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر اکٹھے کیا ، وہ لوگوں کو بیس راتیں تراویح پڑھاتے تھے ، اور نصفِ ثانی کے سوا دعاء ِ قنوت نہیں کرتے تھے،جب آخری عشرہ آتا تو جماعت کرانا چھوڑ دیتے اور اپنے گھر میں نماز پڑھتے اور لوگ کہتے کہ ابی ّبھاگ گئے ہیں ‘‘۔ یہ ہیں حدیث کے اصل الفاظ جن میں بیس راتوں کا ذکر ہے نہ کہ بیس رکعتوں کا ، اور ظاہر ہے کہ [لَیْلَۃً]کی بجائے[رَکْعَۃً]کا لفظ لا نا اور اسے بیس تراویح کے ثبوت کے لیٔے مستدل بنانا ایک اہم دینی کتاب میں شرمناک تحریف ہے۔ اگر سوال پیدا ہو کہ جب [لَیْلَۃً]کی بجائے[رَکْعَۃً]بعض مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے تو پھر اسے تحریف کیوں کہا جائے ؟ تو جواباً عرض
Flag Counter