Maktaba Wahhabi

9 - 96
البتہ ماہِ رمضان المبارک کے شب و روز انتہائی برکت و فضیلت والے ہیں، لہٰذا اس ماہ میں صدقہ و خیرات ، تلاوتِ قرآنِ کریم اور نوافل جس قدر بھی ممکن ہوں کم ہیں۔ لیکن جو آدمی کسی عذر کی وجہ سے نمازِ تراویح ادا نہیں کرسکا وہ صبح روزہ رکھ سکتا ہے، اور اسکے روزے میں کسی قسم کا کوئی فرق یا نقص نہیں آتا ۔ پہلی دلیل : نمازِ تراویح کی ترغیب دلانے کیلئے اتنی سخت فتویٰ بازی کی بجائے مسنون طریقہ اختیار کرنے میں ہی خیر و برکت ہے اور وہ مسنون طریقہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ، سننِ اربعہ اور مسند احمد میں مذکور ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یُرَغِّبُ فِی قِیَـامِ رَمَضَـانَ مِـنْ غَیْـرِ أَنْ یَأْمُرَہُـمُ فِیْہِ بِعَزِیمَۃٍ، فَیَقُوْلُُ:مَـنْ قَـامَ رَمَضَـانَ اِیمَانَـاً وَاِحْتِسَابَـاً غُـفِرَ لَـہٗ مَاتَقَـدَّمَ مِـنْ ذَنْبِہٖ)) بخاری مع الفتح ۴؍۲۵۰ ، مسلم مع النووی ۳؍۶؍۴۰ ، المنتقیٰ مع النیل ۲؍۳؍۴۹، مشکوٰۃ ۱؍۴۰۵، الفتح الربانی ۹؍۲۲۰ ۔ ۲۲۱ ۔ ’’ نبی ﷺ لوگوں کو رمضان کی راتوں میں قیام کرنے [نمازِ تراویح پڑھنے ] کی ترغیب دلایا کرتے تھے لیکن آپ ﷺ انھیں عزیمت [ وجوباً پابندی ] کا حکم نہیں دیتے تھے ۔اور فرمایا کرتے تھے کہ’’ جس نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اسی کی رضاء و خوشنودی کے حصول کی خاطر رمضان کی راتوں کو قیام کیا ، اسکے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے گئے ‘‘ ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہٗ اللہ نے کہا ہے کہ سنن نسائی میں قتیبہ نے سفیان کے طریق سے اس حدیث میں(( مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ)) کے بعد (( وَمَا تَأَخَّرَ ))کا اضافہ بھی روایت کیا ہے کہ سابقہ اور لاحقہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ۔ اور انکا کہنا ہے کہ یہ اضافی الفاظ مسند احمد کی ایک روایت میں بھی مروی ہیں ۔ [ اور انکا یہ اشارہ مسند احمد کی اُسی روایت کی طرف ہے جو سابق میں ذکر کی جاچکی ہے ، جسے امام منذری رحمہٗ
Flag Counter