خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر انسان پیداتو سلیم الفطرت ہوتاہے ،مگر جاہل ہوتا ہے،اس کے اندر بالقوہ قبولِ حق کی استعداد ہوتی ہے ،اب اگر وہ انبیاءِ کرام کی تعلیمات کو اپناتاہے،جو کہ ہدایت کا منبع ومخزن ہوتی ہیںاور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتارہتا ہے ،تو وہ یقیناً زیورِ ہدایت سے آراستہ وپیراستہ ہوجائے گا،لیکن اگر وہ اپنے اندر فطرۃً قبولِ حق کی استعداد کے باوجود،وحیٔ الٰہی سے ہدایت حاصل نہیں کرتا اورنہ ہی صدقِ دل سے ہدایت کی دعاکرتاہے تووہ گمراہ ہی رہتا ہے ۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اسی نکتہ کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قد ظن بعضھم أنہ معارض لحدیث عیاض بن حمار عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم (یقول اللہ عزوجل :خلقت عبادی حنفاء-وفی روایۃ:مسلمین- فاجتالتھم الشیاطین) ولیس کذلک، فإن اللہ خلق بنی آدم وفطرھم علی قبول الإسلام والمیل إلیہ دون غیرہ، والتھیؤ لذلک والاستعداد لہ بالقوۃ ،لکن لابد للعبد من تعلیم الإسلام بالفعل، فإنہ قبل التعلیم جاھل لایعلم شیئا،کما قال عزوجل:[واللہ أخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیئا]وقال لنبیہ صلی اللہ علیہ وسلم : [ووجدک ضالا فھدی] والمراد وجدک غیر عالم بما علمک من الکتاب والحکمۃ |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |