Maktaba Wahhabi

105 - 303
فرمایا:’’إِنَّ الرَّجُلَ یَنْصَرِفُ وَمَاکُتِبَ لَہٗ إلَّا عُشْرُ صَلَاتِہٖ، تُسْعُہَا، ثُمُنُہَا، سُبُعُہَا، سُدُسُہَا، خُمُسُہَا، رُبُعُہَا، ثُلُثُہَا، نِصْفُہَا‘‘(احمد، ابوداود، ابن حبان، بسند حسن- صحیح الجامع:۱۶۲۶)آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو کبھی اس کو پوری نماز کے دسویں حصے کا ثواب ملتا ہے، کبھی نویں حصے کا، اسی طرح آٹھویں، ساتویں، چھٹے، پانچویں، چوتھے، تہائی اور کبھی نصف حصے کا ثواب ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لَیْسَ لَکَ مِنْ صَلَاتِکَ إِلَّا مَا عَقَلْتَ مِنْہَا‘‘(فتاویٰ ابن تیمیہ:۲۲؍۶۱۲) تمہاری نماز میں سے تمہیں اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا تم نے اس میں سے سمجھا، یعنی جتنے میں دل کی حاضری رہی۔ گویا نماز ادا تو ہوجائے گی اور بندے سے فرضیت ساقط ہو جائے گی، مگر اس کے ثواب کا دارومدار حضور قلب اور خشوع وخضوع پر ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ إِلاَّ السَّہْرُ‘‘(ابن ماجہ - صحیح الجامع:۳۴۸۸،۳۴۹۰) کتنے روزے دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزے سے سوائے بھوک وپیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح کتنے قیام اللیل(تراویح وتہجد)پڑھنے والے ایسے ہیں جن کو اپنے تہجد سے شب بیداری کے علاوہ کچھ اور ہاتھ نہیں لگتا۔ نماز کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ﴿إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ﴾(سورہ عنکبوتـ۴۵)نماز بے حیائی اوربرائی کے کاموں سے روکتی ہے۔تو یہ اسی نماز کا وصف ہوگا جو پورے آداب وشرائط اور حضور قلب کے ساتھ پڑھی جائے گی۔آج ہماری نمازیں اگر بے اثر نظر آتی ہیں اور ہمارے اخلاق وعادات پر ان کا مثبت اثر نہیں دکھائی دیتا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری نمازیں اپنی روح سے خالی ہیں ، ان کے اندر وہ جوہر نہیں
Flag Counter