Maktaba Wahhabi

109 - 534
ہوگا۔ مسئلہ مذکورہ میں جواز کی بنیادی دلیل یہ مستقل قاعدہ و ضابطہ ہے کہ: معاملات ، لین دین وخرید وفروخت میں قاعدہ یہ ہے کہ وہ جائز ہے سوائے اس کے کہ جس کی حرمت شریعت بیان کرے ، لہٰذا ایک ہی وقت میں وکیل کا بائع و مشتری ہونا بیان کردہ تفصیل کے مطابق جائز ہے کیونکہ اس کی حرمت شریعت سے ثابت نہیں ہے اور جہاں تک دھوکہ کے امکان کا تعلق ہے تو وہ مذکورہ شرط سے دور ہوجاتا ہے ۔ تیسری شرط:خریدی و فروخت کی جانے والی چیزشرعی اعتبار سے خرید و فروخت کے قابل ہو یعنی وہ پاک ہو ،حلال ہو اورشرعی طور پر نفع بخش ہو ۔ الغرض ثمن ( قیمت ) مثمن ( سامان ) دونوں شرعی اعتبار سے پاک اورحلال ہوں اورعام حالات میں شرعی طور پر اُس سے فائدہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہو ،کیونکہ جن سے عام حالات میں شرعاً فائدہ حاصل نہیں کیاجاسکتا اُن کی خرید و فروخت ہر حال میں حرام ہے ، جیسے شراب وغیرہ۔ (عام حالت سے مرادعمومی یعنی غیر اضطراری حالات ہیں ،کیونکہ اضطرار ومجبوری میں کچھ چیزیں عارضی طور پر جائز ہوجاتی ہیں)۔ مذکورہ تینوں اوصاف (پاک ہونا، حلال ، ہونا اورجائز نفع بخش ہونا)ان میں سے اگر ایک وصف بھی مفقود ہوا تو اس چیز کی خرید و فروخت شریعتِ مطہّرہ میں جائز نہیں ہے ۔ اس حوالے سے ایک اور مسقل قاعدہ ہے کہ: ’’ تمام حلال و پاک اشیاء کی خرید و فروخت مطلقاً جائز ہے ، اسی طرح جن اشیاء سے نفع و فائدہ اٹھاناشرعاًصحیح و درست ہو تو ان کی خرید وفروخت بھی درست ہے سوائے اُن صورتوں میں جن میں شریعتِ مطہّرہ نے دیگر حکمتوں و مقاصد کے پیشِ نظر اُن کی خرید و فروخت کو جائز قرار نہیں دیا۔ جیساکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے کہ: یقیناً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب (خمر)، مردار ،خنزیراور بت ومورتیوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا ہے،کہا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مردہ جانور کی چربی کے بارے میں
Flag Counter