Maktaba Wahhabi

147 - 534
اس صورت میں ایفاءوعدہ کا التزام نہیں ہے ، نہ ہی نقصان کا عوض ادا کرنے کی شرط ہے ، تو اگر سامان تلف ہوجائے تو صارف پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ، بینک یہ سامان خریدتے وقت رسک لیتا ہے، اسے مکمل یقین نہیں ہوتا کہ صارف اس سے یہ سامان خریدے گا یا نہیں ؟ اور یہی مخاطرت (رسک اٹھانا) اس معاملہ کو جواز کی شکل دیتا ہے ‘‘۔ یعنی اگر بینک اس معاملہ میں کسی قسم کا رسک اٹھانے پر رضامند نہیں تو مرابحہ کی صورت میں حاصل ہونے والا منافع بھی اس کے لئے جائز نہیں ۔ کیونکہ عدم مخاطرت کی صورت میں یہ معاملہ قرض پر سود لینے کے مشابہ ہوجائے گا۔  ’’لا ضرر و لاضرار ‘‘ والا قاعدہ بینک صرف اپنے لئے ہی کیوں استعمال کرتا ہے ، کیا یہ قاعدہ صارف پر منطبق نہیں ہوتا، جو بیچا رہ سامان نہ لینے کے باوجود بھی ایک بھاری رقم ادا کرنے کا پابند ہے!، کیا یہ اس کے لئے نقصان اور ضرر نہیں؟۔ وعدہ کا لازمی ایفاء : ایک جادو کی چھڑی! اسلامی بینکاری نظام میں ’’وعدہ کا لازمی ایفا ء ‘‘ ایک جادو کی چھڑی ثابت ہوئی ہے ، جہاں کوئی شرعی قباحت آئی وہاں اس جادو کی چھڑی کو استعمال کر کے اس حرام کو حلال بنا لیا گیا ہے، مثلاً:  مشارکہ متناقصہ میں مشارکہ کے معاہدہ میں ہی صارف سے وعدہ لے لیا جاتا ہے کہ وہ اس مشارکہ کے ذریعہ جو چیز خریدی گئی ہے اس میں بینک کے جو حصص (شیئرز) ہیں انہیں خریدے گا۔ اب اگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں: (1) مشارکہ کا معاہدہ ۔ (2) مشارکہ کے تناقص (بتدریج ختم کرنے ) کا معاہدہ ، جسے (Diminishing Musharakah) کہا جاتا ہے۔ اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے : ’’ نهى رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة‘‘۔[1]کہ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاہدہ میں دو معاہدے کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔ اب یہاں معاہدے کو لازمی وعدہ کا نام دے کر جائز کرلیا گیا ہے ، اور راقم یہ سمجھنے سے قاصر ہےکہ معاہدہ میں اور وعدہ کے لازمی ایفاء میں سوائے نام کے اور کیا فرق ہے؟ کیا لازمی ایفاء ،
Flag Counter