Maktaba Wahhabi

144 - 534
المذھب نہیں ؟ ۔ خود مفتی تقی عثمانی صاحب اسلامی بینکاری کے متعلق غلط فہمیوں کے ازالہ میں فرماتے ہیں : ’’خروج عن المذھب اس کو کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں کوئی مسئلہ مصرح ہو کہ یہ چیز ناجائز ہے اور ہم اس کو چھوڑ کر مالکی یا شافعی مذہب سے مسئلہ لے لیں جب کہ وہاں اس کو جائز کہا گیا ہو ۔ یہ خروج عن المذھب ہے‘‘۔[1] عرض یہ ہےکہ فقہ حنفی میں بھی وعدہ کے ایفا ء کو مستحب تو کہا گیا ہے لیکن قانونی طور پر اس ایفاءِوعدہ کو لازم قرار نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ ابن عابدین نے ’’العقود الدرية‘‘ میں ذکر کیا ہے2۔سوال یہ ہے کہ جب فقہ حنفی میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ موجود ہے توپھر فقہ مالکی کی طرف جانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟۔کیا یہ خروج عن المذھب نہیں؟۔ بہرحال یہ ایک الزامی توجیہ ہے ، ہمارا تعلق الحمد للہ اہلحدیث مسلک سے ہے جس میں مذہب قرآن و حدیث ہے اور اس میں خروج عن المذھب کا کوئی تصور نہیں۔ (2) فقہ مالکیہ کی طرف جس بات کی نسبت کی گئی ہے ، میں بہت احترام سے ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ نسبت غلط ہے۔ مالکیہ نے ایفاءوعدہ کو اخلاقاً اور قانوناً دونوں لحاظ سے واجب قرار تو دیا ہے لیکن وہ صرف تبرعات میں ہے ، یعنی جب ایک شخص کسی سے بھلائی کا ارادہ کرے، اس سے وعدہ بھی کرلے ، تو دینی لحاظ سے بھی اور قانونی لحاظ سے بھی اس پر یہ واجب ہے کہ اس وعدہ کو پورا کرے، اور اس کے لئے بھی انہوں نے ایک شرط رکھی ہے کہ جب اس وعدہ کی وجہ سے جس سے وعدہ کیا گیا ہو وہ کسی معاملہ میں یا کام میں داخل ہوجائے تو وعدہ کرنے والے پر ایفاء دینی اور قانونی طور پر واجب ہے۔ امام سحنون مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جس وعدہ کا ایفاء لازم ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کہے کہ تم اپنا مکان گرادو میں تمہیں قرض دوں گا تا کہ تم نیا مکان بنا سکو، یا تم حج کے لئے نکلو میں تمہیں زاد راہ فراہم کروں گا، یا تم فلاں سامان خرید لو میں تمہیں ادھار پیسے دوں گا، یا تم شادی کرلو میں تمہیں قرضہ فراہم کروں گا تو
Flag Counter