Maktaba Wahhabi

72 - 534
رکھا جواللہ تعالیٰ کے احکام میں مضمرحکمتوں کے منافی ہے ،اظہر حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ فلاں کام صلاح سے قریب اور فساد سے دورہے اگر چہ اس بارے میں رسول اللہ نے کو ئی ہدایت نہیں دی ہےپر کہہ ومہ کا کام نہیں ہےاگر کوئی حکومت نیک نیتی سے عصر حاضر کے تقاضوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں پورا کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہ کام ایک ایسی کمیٹی کو سپرد کرنا چاہیے جن کی نظر قرآن حکیم ،حدیث نبوی، قضایا وفتاوی صحابہ، مسالک ائمہ مجتہدین اورفقہی مکاتب فکر پر وسیع اور گہری ہونے کے باوصف موجودہ ضروریات کو خوب سمجھتی ہو اور سب سے بڑھ کریہ کہ یہ بزرگ تعلق باللہ اور تقویٰ وتدین کی صفات سے متصف ہوں۔ اور حق یہ ہے کہ یہ آخری وصف اسلامی نظامِ سیاست وعدالت میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔[1] واقعیت و افادیت اسلام کا نظام معیشت صرف نظریہ نہیں اورافلاطون کی طرح صرف خیال نہیں بلکہ قرونِ مفضلہ میں کامل طور پر اور اس کے بعد بیشتر طور پر نافذ العمل رہااور یہی وہ زمانہ ہے جب انسان اسلام کے نظامِ عدل کے سایہ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ایک زمانہ تھا جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تھا تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق سوال کرتے کہ ’’هل عليه من دين‘‘ اگر اثبات میں جواب ملتا تو’’ هل ترک من وفاء‘‘ قرض کی ادائیگی کا کوئی سامان کیا۔اگر اس کے ذمہ قرض کی ادائیگی کا سامان ہوتا تو اس کی نماز جنازہ پڑھاتے ورنہ کہتے:’’صلّوا علی صاحبکم‘‘۔تم خود ہی اس کی نماز جنازہ پڑھ لو‘‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رزق امّت کو وسیع کردیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروادیا ’’من ترك مالا فلورثته، ومن ترك دينا او كلا فإلينا’’[2] ’’جو مال چھوڑ کر مرا تو اس کے وارثوں کے لئے ہےاور اگر کوئی قرض یا عیال چھوڑ کر مرا تو اس کے ذمہ
Flag Counter