Maktaba Wahhabi

117 - 534
فروخت کرنے سے منع فرمایا ہےیہاں تک کہ تاجر اُسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں‘‘۔[1] قبضہ سے قبل فروخت کی ممانعت کی علّت یہ عمل آج اتنا عام ہوگیا ہے کہ درآمد کی جانے والی اشیاءملک میں آتے آتے کئی جگہ فروخت ہو چکی ہوتی ہیں ، جو اسلامی شریعت میں ایک مذموم عمل ہے۔  اس کے دنیاوی نقصانات میں سے اہم ترین نقصان یہ ہوتاہے کہ چونکہ وہ منزل تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں میں فروخت ہوچکی ہوتی ہے اس لئے جب وہ گھر میں پہنچتی ہے تو اُس کی انتہائی مہنگی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں چڑھاؤ آتا ہے جو غریب و متوسط طبقہ کے لئے بالخصوص ظلم کے مترادف ہے۔  اور دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ باربرداری کے شعبہ سے وابستہ مزدوروں کا روزگار متاثر ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ حکمت و بصیرت، دور اندیشی اور عدل و انصاف پر مشتمل اسلامی شریعت اس عمل کی بلکہ ہر اُس عمل کی سختی سے مذمت کرتی ہے جو عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہ اترے،بلکہ معاشرے میں موجود متوسط اور غریب افرادپر ناحق بوجھ اور ظلم و زیادتی کا باعث بنے۔  گذشتہ اسباب کے علاوہ شریعت میں اس کی حرمت کا بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ یہ بیع الغرر Uncertainty)اورجہالت،ودھوکہ) میں سے ہےاوربیع الغرر سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ بیع الغرر سے مراد وہ بیع ہے جس میں کسی بھی لحاظ سے جہالت (لا علمی)،یا دھوکہ ہو،یاجس میں بیچی یا خریدی جانے والی چیز کا ذریعہ حصول معلوم نہ ہو یا اس کی حقیقت یا مقدار معلوم نہ ہو۔ اورجب تک انسان کے قبضہ میں مال نہیں آجاتا اس وقت تک اس کی حقیقت مجہول ہی کے حکم میں ہے جوکہ غرر ہے، اور غرر اس طور پر بھی ہے کہ قبضہ سے قبل فروخت کرنے والا اگر اُسے سستی قیمت میں بیچتا ہے اورخریدار کو وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے تو وہ فائدہ مند ہوگاوگرنہ نقصان میں، اور فائدہ و نقصان کے درمیان یہی
Flag Counter