Maktaba Wahhabi

177 - 534
سامان کی ملکیت اپنے پاس رکھے اور اسے مکمل اطمینان رہے، اور وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہے، وہ اس طرح کہ:  اجارہ میں کرایہ دار سامان کا مالک نہیں ہوتا ، اگر کسی موقع پر کرایہ دار ، کرایہ ادا کرنے سے عاجز ہو تو بینک اس سے اپنا سامان واپس لے سکتا ہے ، اور اس سے جو رقم بینک نے وصول کی تھی وہ چونکہ کرایہ تھا اس لئے بینک اسے واپس نہیں کرتا کیونکہ صارف اس کرایہ کے عوض منفعت حاصل کرچکا ہے، اور اجارہ فسخ ہونے کی صورت میں مؤجر کرایہ واپس نہیں کرتا، جبکہ قسطوں پر فروخت کی صورت میں سامان کی ملکیت صارف کو مل جانے کے بعد اگر صارف اقسا ط ادا نہ کرسکے اور وہ تنگ دست ہو تو شرعی طور پر بینک اس پر جرمانہ نہیں لگا سکتا اور نہ ہی وہ سامان زبردستی واپس لے سکتا ہے، اور اگر سامان واپس لے تو شرعی اور قانونی طور پر بینک پر یہ واجب ہوتا ہے کہ صارف کی ادا کردہ رقم میں سے سامان کے استعمال کے برابر رقم منہا کر کے باقی رقم صارف کو واپس کرے۔  مروجہ اجارہ میں بینک سامان کی انشورنس کراتا ہے اور سامان تلف ہوجانے کی صورت میں انشورنس سے حاصل شدہ رقم کا سامان کے مالک ہونے کی حیثیت سے قانونی حقدار ٹھہرتا ہے ، جبکہ صارف چونکہ صرف کرایہ دار ہے اس لئے وہ خالی ہاتھ رہتا ہے، اور دوسری طرف سامان (گھر ، گاڑی) پر لگنے والے ٹیکس ، اور سامان (مثلاً گاڑی ) کے خراب ہونے کی صورت میں درستگی وغیرہ کے اخراجات کو ’’جاری اخراجات‘‘ (Running Expenses) کہہ کر بینک صارف کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتا ہے۔  شرعی اجارہ میں بعض صورتوں میں کرایہ دار سے کرایہ معاف ہوجاتا ہے جب کرایہ دار کو سامان کی مخصوص منفعت حاصل نہ ہو، مثال کے طور پر اگر اس نے گھر کرایہ پر حاصل کیا اور گھر پر کسی نے جبراً قبضہ کرلیا تو ایسی صورت میں چونکہ اسے گھر کی مطلوبہ منفعت حاصل نہیں ، اس لئے وہ کرایہ ادا نہیں کرتا، لیکن مروجہ اجارہ میں چونکہ بینک صارف کو گھر کرایہ پر نہیں دے رہا ہوتا بلکہ درحقیقت بیچ رہا ہوتا ہے اس لئے وہ بہر صورت صارف سے ماہانہ رقم وصول کرتا رہتا ہے ، چاہے صارف کو منفعت حاصل ہو یا نہیں۔
Flag Counter