Maktaba Wahhabi

142 - 534
حقیقی خرید وفروت میں بازارمیں موجود ایک تاجر کو عمومی طور پر دوبنیادی اندیشوںکا سامنا ہوتا ہے: 1. جو سامان اس کے پاس موجود ہے وہ کوئی خریدے گا بھی یا نہیں؟۔ 2. سامان فروخت ہو کر خریدنے والے کے پاس اس کی منتقلی تک اس کے ضائع ہونے تلف ہوجانے اور دیگر ہر قسم کے نقصان کوتاجر نے ہی برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اسلامی بینک کو عملی طور پر ان دونوں اندیشوں کا سامنا نہیں ہوتا۔ 1. بینک کے پاس کوئی سامان نہیں جس کے نہ بکنے کا اسے کوئی اندیشہ ہو۔ 2. صارف کے کہنے پر بینک کوئی بھی سامان خریدنے سے پہلے صارف سے تحریری صورت میں وعدہ لیتا ہے کہ وہ یہ سامان بینک سے لازماً خریدے گا۔ 3. بینک اس وعدہ پر ہی اکتفاء نہیں کرتا بلکہ پہلے سے صارف سے ایک مخصوص رقم سیکیورٹی کی مد میں وصول کرتا ہے تاکہ صارف کے وعدہ سے مکر جانے کی صورت میں ہونے والے نقصا ن کو پورا کیا جاسکے۔ 4. سامان خریدنے سے لے کر صارف تک پہنچنے تک بینک کا عملاً کوئی کردار نہیں ہوتا۔بلکہ سامان بیچنے والے کے پاس سے براہ راست صارف تک منتقل ہوتا ہے اور بینک پہلے اسے اپنے قبضہ میں لینے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کیسے تصورکیا جاسکتا ہے کہ اسلامی بینک مرابحہ کے حوالہ سے کسی قسم کا رسک یا مخاطرت کا سامنا کرتا ہے؟ اور اگر بینک کو مرابحہ میں تمویل کے ذریعہ جو منافع حاصل ہورہا ہے اس کا دارومدار مخاطرت پر نہیں تو اس ’’ربح‘‘ کو’’ ربا‘‘ سے الگ حکم دینے کا کیا جواز ہے؟۔ مروجہ مرابحہ پر چند بنیادی شرعی اعتراضات: ( پہلا اعتراض ) (Master Murabaha Facility Agreement ) میں صارف سے لیا جانے والا وعدہ اور اس کا لازمی ایفاء: وعدہ کی پاسداری شریعت میں اخلاقی طور پر یقیناً فرض ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَأَوْفُوْا بِالْعَهْدِ
Flag Counter