Maktaba Wahhabi

143 - 534
إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا} ( الإسراء: 34)، ’’وعدے پورے کرو، بیشک وعدوں کی پاسداری کے متعلق پوچھا جائے گا‘‘۔اسی لئے ایک مسلمان کا یہ دینی تقاضا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرے، لیکن قانونی طور پر کسی وعدے کو جبراً پورا کرانا یا قانونی طور پر وعدے کے ایفاء کو لازم قرار دینا خصوصا ً بیوع کے معاملات میں بہت سے شبہات کو جنم دیتا ہے۔اسلامی بینکنگ کے کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جس میں صارف سے وعدہ لیا جاتا ہے اور اسے قانوناً لازم قرار دیا جاتا ہے اور اس حیلہ کے ذریعہ بینک اپنے حصہ کا سارا رسک صارف کے کھاتے میں ڈال کر بے نیاز ہوجاتا ہے۔ مروجہ مرابحہ میں بھی اسی حیلہ کا استعمال کیا گیا ہے ، صارف سے وعدہ لیا جاتا ہے کہ جب بینک اس کا مطلوبہ سامان حاصل کرلے گا تو صارف اسے ضرور خریدے گا، یا یہ وعدہ لیا جاتا ہے کہ اگر صارف نے اس سامان کو نہ خریدا تو بینک کو ہونے والا نقصان صارف برداشت کرے گا، اور اس حیلہ کے استعمال سے مرابحہ میں جو شرعی مخالفات سامنے آتی ہیں ان سے قطعی طور پر صرف نظر کیا جاتا ہے۔ان شرعی مخالفات میں سب سے بدتر مخالفت مروجہ مرابحہ کا سودی تمویل سے مشابہ ہوجانا ہے۔ان مخالفات کا ذکر آئندہ سطور میں ہوگاان شاء اللہ۔ مروجہ مرابحہ میں صارف سے لئے جانے والے یکطرفہ وعدہ اور اس کے لازمی ایفاء کے حوالہ سے اسلامی بینکوں کےذمہ داران دو بنیادی دلائل پیش کرتے ہیں: (پہلی دلیل) مذہب مالکیہ میں ایفاءوعدہ کو لازم قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا اسی کو دلیل بناتے ہوئے مرابحہ میں صارف پر ایفاءوعدہ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔[1] اس دلیل کے جواب میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا: (1) پاکستان میں بالخصوص اسلامی بینکاری کی بنیاد مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اور ان کے رفقاء نے رکھی ہے ، اورمفتی صاحب اور ان کے رفقاء نے اسلامی بینکاری کی بنیادوں کو عموماً فقہ حنفی پر استوار کیا ہے کیونکہ مفتی صاحب کا تعلق مسلک حنفی سے ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ جب تمام بنیادیں اور اصول فقہ حنفی سے مستمد و مستفاد ہیں تو اس معاملہ میں فقہ حنفی سے درخور اعتناء کا کیا مطلب؟ کیا یہ خروج عن
Flag Counter