Maktaba Wahhabi

132 - 534
پانچواں اصول کتبِ فقہ میںمضاربہ کی بحث میں ایک اصول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ مضاربہ کی بنیاد پر لئے گئے سرمائے سے صرف تجارت(Trading)ہی کی جاسکتی ہے ،تجارت کے علاوہ اسے کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں کیاجاسکتا ۔چنانچہ امام نووی فرماتے ہیں: "عقد القراض يقتضی تصرف العامل فی المال بالبيع والشراء ، فإذا قارضه علی أن يشتری به نخلا يمسک رقابها ويطلب ثمارها لم يجز لانه قيد تصرفه الکامل بالبيع والشراء ، ولان القراض مختص بما يکون النماء فيه نتيجة البيع والشراء وهو فی النخل نتيجة عن غير بيع وشراء فبطل أن يکون قراضا ولا يکون مساقاة، لأنه عاقده علی جهالة بها قبل وجود ملكها، وهكذا لو قارضه علی شراء دواب أو مواشی يحبس رقابها ويطلب نتاجها لم يجز لما ذکرنا".[1] ’’عقد مضاربہ کا تقاضا یہ ہے کہ مضارب خرید وفروخت کے ذریعے ہی مال میں تصرف کرے لہٰذا جب وہ اس طرح مضاربہ کرے کہ وہ اس مال سے کھجوروں کے درخت خریدے گااور ان سے پھل حاصل کرے گا تو یہ جائز نہیں ہوگا کیونکہ قید یہ ہے کہ کامل تصرف خریدوفروخت کے ذریعے ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مضاربہ ان معاملات کے ساتھ مختص ہے جہاں مال میں اضافہ خریدوفروخت کے نتیجے میں ہو جبکہ کھجوروں میں یہ اضافہ خریدوفروخت کے نتیجے میں نہیں اس لیے اس کا مضاربہ باطل ٹھہرا اور یہ مساقات کا معاملہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس صورت میں یہ کھجوروں کی ملکیت وجود میں آنے سے پہلے مجہول درختوں پر عقد ہوگا ۔اسی طرح اگر اس طرح مضاربہ کرلے کہ وہ جانور یا مویشی خریدے گا جو بذات خود تو اس کے پاس محفوظ ہوںگے مگر ان کی پیدا وار حاصل کر ے گا تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا۔ وجہ وہی ہے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہے یعنی یہ نفع خریدوفروخت کے نتیجے میںحاصل نہیں ہوا۔‘‘
Flag Counter