Maktaba Wahhabi

179 - 534
اس پر بیع کے احکامات کا ہی اطلاق کیا جائے گا۔بیع کے احکامات میں سے ایک یہ ہے کہ معاہدہ ہونے کے بعد سامان کی ملکیت بائع سے مشتری کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ، چاہے قیمت مکمل ادا کی گئی ہو یا ادائیگی جاری ہو مجمع الفقہ الاسلامی کی قسطوں پر خرید وفروخت کے بارے میں قرار داد کے مطابق :’’لا حقَّ للبائع في الاحتفاظ بِملكيَّة المبيع بعد البيع‘‘بائع کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ بیع ہوجانے کے بعد ملکیت کو اپنے پاس محفوظ رکھے[1]۔ جبکہ مروجہ اجارہ میں بینک چیز کی ملکیت کو اپنے پاس رکھتا ہے، اور بعد میں آخری قسط کی ادائیگی کے بعد خود بخود یا پھر الگ معاہدہ کے تحت یا ہدیہ کے ذریعہ سامان کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے۔ ( چوتھا اعتراض) ’’ایک معاہدہ میں دو معاہدے‘‘کی قباحت مروجہ اجارہ میں صارف کو ملکیت کی منتقلی کے لئے عموماً بینک کی جانب سے ہدیہ کا وعدہ کیا جاتا ہے ، یا مدت کے اختتام پر رسمی قیمت کے بدلہ فروخت کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ مرابحہ کی بحث میں تفصیلاً گزر چکا ہے کہ کسی معاہدہ میں کسی چیز کا دو طرفہ یا یکطرفہ وعدہ اور اس کا التزام دراصل بذات خود ایک معاہدہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے، کیونکہ قانوناً و قضاءلازمی ایفاء ،معاہدہ کی صفت ہے نا کہ وعدہ کی۔لہٰذا اسلامی بینک کا صارف سے کیا گیا وعدہ ایک معاہدہ ہے اور اس طرح اجارہ کے معاہدہ میں دو معاہدے شامل ہیں: اجارہ کا معاہدہ، بیع کا معاہدہ۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اجارہ کے ساتھ بیع کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے ، اور دونوں معاہدوں کو ایک معاہدہ میں جمع کیا جاسکتا ہے ، ڈاکٹر علی قرۃ الداغی کہتے ہیں:’’جمہور فقہاء (مالکیہ ، شافعیہ، اور حنابلہ) نے اجارہ اور بیع کو ایک معاہدہ میں جمع کرنے کو جائز کہا ہے۔ شرح الخرشی میں ہے : ’’اجارہ اور بیع کو ایک معاہدہ میں جمع کرنا جائز ہے ، جیسے کوئی شخص کسی سے کھال خریدے اس شرط پر کہ بیچنے والا اس کھال سے مشتری کو جوتا بنا کر دے گا‘‘[2]۔اسی طرح المغنی میں ہے : ’’اگر دو مختلف قیمت والے عقد ایک عوض کے بدلہ جمع کردئے جائیں ۔۔۔ جیسے وہ یوں کہے : میں تمہیں یہ گھر بیچتا ہوں اور دوسرا گھر کرایہ پر دیتا ہوں ایک ہزار کے عوض ، تو یہ عقد صحیح ہوگا۔[3]
Flag Counter