Maktaba Wahhabi

182 - 534
تمویل سے مشابہ کردیتا ہے۔  بینک کا مروجہ اجارہ میں کرایہ کے تعین میں شرح سود کو معیار مقرر کرنا ۔جس کے سبب اجارہ میں کرایہ مجہول(نام معلوم) ہوجاتا ہے۔  اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صارف پر لگایا جانے والا جرمانہ جسے صدقہ کا نام دیا جاتاہے۔  بینک کا سامان کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا۔  ایک معاہدہ میں دو معاہدے کی قباحت۔ ان تمام شرعی اعتراضات کی موجودگی کے سبب اسلامی بینکوں میں جاری اجارہ کا معاہدہ شرعی لحاظ سے صحیح نہیں ۔اس کے ناجائز و حرام ہونے کا فتوی سعودی عرب کی کبار علماء کمیٹی نے بھی دیا ہے اور اس کا بنیادی سبب ایک معاہدہ میں دو معاہدوں کی قباحت قرار دیا ہے۔[1] مروجہ اجارہ کا شرعی متبادل مروجہ اجارہ کا حقیقی شرعی متبادل ، قسطوں پر بیع ہے ، اور اس میں بینک کے لئے یہ سہولت بھی ہے کہ وہ چیز فروخت کرنے کے بعد اس کی ملکیت بطور رہن کے اپنے پاس رکھ لے، اور جب اقساط مکمل ہوجائیں تو اس کی ملکیت صارف کو واپس کردی جائے۔یہی وہ متبادل ہے جس کی طرف سعودی عرب کی علماء کمیٹی نے بھی درج بالا فتوی میں رہنمائی کی ہے۔
Flag Counter