Maktaba Wahhabi

84 - 534
اہم مثال ہےجس پر کسی قسم کا کوئی تردّد نہیں ہے۔ اس ضابطہ کے دلائل درجِ ذیل ہیں : فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {وَأَحَلَّ اللّٰه الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا }[البقرۃ:275] ترجمہ: ’’حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام‘‘ ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی لین دین، خرید و فروخت ،کاروبار و تجارت وغیرہ کومطلقاً حلال قرار دیا ہے اور سود کو مطلقاً حرام ۔ اب اس بیع کا تعلق زمین او راس کے متعلقات اناج وغیرہ سے ہو ، حیوانات وغیرہ سے ہو یا دیگر ساز و سامان سے،سب کی بیع حلال ہے جب تک کہ ان میں کوئی بھی ایسا شرعی سبب نہ پایا جائے جو انہیں حرام کردے جیسے سود اور دیگر بیوعِ محرّمہ۔ اور سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {يَا أَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْٓا أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ} [المائدۃ: 1]ترجمہ:’’ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو ‘‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو ہر مالی معاملہ و عقد کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے خواہ وہ معاملہ اور اس کی صورت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں موجود ہو یا نہ ہو جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہر مالی معاملہ و عقد شرعاً جائز و حلال ہے سوائے اس کے جسے باقاعدہ حرام قرار دیا گیا ہو۔ ایک اور مقام پرفرمانِ باری تعالیٰ ہے : { يَا أَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّآ أَنْ تَکُونَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ } [النساء: 29] ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔ درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو ‘‘ اس آیت میں رب العالمین نے جائز تجارت کے ذریعہ منافع خوری کوباہمی رضامندی کی شرط کے ساتھ حلال و جائز قرار دیا ہے جس کا معنی ہے کہ ہر جائز تجارت کا منافع باہمی حقیقی رضا مندی سے جائز ہے سوائے اس منافع کے جسے حرام قرار دیا گیا ہو جیسے وہ منافع جو ظلم و زیادتی ، ناانصافی یا حرام کام پر مبنی ہوں،
Flag Counter