Maktaba Wahhabi

138 - 534
فقہاء کے نزدیک مرابحہ کی اصطلاحی تعریف: ’’کسی چیز کی خرید وفروخت اس کی اصل قیمت اور معلوم منافع کے ساتھ‘‘۔ یعنی ایک شخص کسی چیز کی فروخت کرتے وقت خریدنے والے کو چیز کی اصل قیمت اور اپنا منافع بیان کر کے فروخت کرے ۔ یہی وہ تعریف ہے جو فقہاء اسلام نے کتب فقہ مثلاً ہدایہ[1]بدائع الصنائع[2] ، المغنی[3] روضۃ الطالبین4میں بیان کی ہےاگرچہ ان کی عبارات میں کچھ فرق ہے۔ بیع مرابحہ کے جواز کی دلیل: (1) اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَاَحَلَّ اللّٰه الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا}(البقرة: 275)’’اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے‘‘۔لہٰذا ہر وہ معاملہ جو بیع کے زمرے میں آتاہے وہ حلال ہے، اور مرابحہ بھی بیع کی ایک قسم ہے۔ (2) علماء نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے کہ :’’الأصل فی المعاملات الحل‘‘ کہ تجارتی و عوضی معاملات میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہیں سوائے ان معاملات کے جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔اور چونکہ بیع مرابحہ بھی معاملات سے متعلق ہے اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص نہیں ملتی جس میں اس کی حرمت کا تذکرہ ہو لہٰذا یہ بیع حلال ہے۔ بیع مرابحہ اور عام بیع میں فرق اور مرابحہ کی ضرورت عام بیع (خرید وفروخت کا معاملہ) میں بھی اگرچہ بیچنے والا اپنا منافع رکھ کر بیچتا ہے لیکن اس میں اور بیع مرابحہ میں فرق اس منافع کو بیان کرنے کا ہے۔بیع مرابحہ میں دوکاندار چیز کی اصل قیمت اور اپنا منافع دونوں بیان کرتا ہے۔بیع مرابحہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ خریدار کو ہمیشہ یہ خدشہ رہا ہے کہ بیچنے والا
Flag Counter