Maktaba Wahhabi

165 - 534
شرط لگائے کہ وہ اسے بڑھا کر دے گا ، یا کوئی ہدیہ دے گا اور اس شرط پر وہ اسے قرضہ دے تو اس کا یہ زائد رقم لینا سود ہے‘‘۔[1] ڈاکٹر نزیہ حماد لکھتے ہیں : ’’ خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانی کے اختتام تک اس مالی جرمانہ کا کوئی حکم ہم تک نہیں پہنچا ، جبکہ یقیناً اس پوری مدت میں بہت سی تاخیر اور ٹال مٹول کا سامنا رہا ہوگا، لیکن تعزیر کی بنیاد پرحبس و قید و دیگرسزاؤںکے احکامات صادر ہوئےلیکن اس مالی جرمانہ کا کوئی حکم کتب فقہ میں مذکور نہیں‘‘۔[2] (5) بینک کا صدقہ سے منفعت حاصل کرنا اگر ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ صدقہ جائز ہے تو یہ بات تو طے ہے کہ اس صدقہ سے بینک کا کوئی منفعت حاصل کرنا قطعی حرام ہے ، اس کا اقرار خود مفتی تقی عثمانی صاحب اور دیگر علماء نے بھی کیا ہے اور یہی بات المعايير الشرعية میں بھی تحریر ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ لیکن اگر عملی طور پر بینک کے معاملات کی جانب دیکھاجائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اسلامی بینک اس سے اگر مادی نہ صحیح معنوی منفعت ضرور حاصل کرتا اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ :  یہ صدقہ جہاں خرچ کیا جاتا ہے وہاں بینک ہی کی تشہیر کی جاتی ہے۔  بہت سی کانفرنسز میں اور ذرائع ابلاغ میں یہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں اسلامی بینک نے اس سال اتنے روپے خیراتی کاموں پر خرچ کئے جس سے بینک کو نیک نامی کی منفعت حاصل ہوتی ہے۔  یہ صدقہ جن اداروں کو دیا جاتا ہے انہیں بھی اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا اکاؤنٹ اسی بینک میں کھلوائیں ۔ یہ اور اسی قسم کے دیگر مادی و معنوی فوائد ہیں جنہیں اسلامی بینک ان نام نہاد صدقات سے حاصل کرتا ہے۔ کیا یہ منفعت کا حصول اس کے لئے جائز ہے؟۔
Flag Counter