Maktaba Wahhabi

311 - 534
زیادتی نہ ہو‘‘۔[1] اور پیسہ کا حکم وہی ہے جو سونے کاحکم ہے ، کیونکہ پیسہ سونے کا متبادل ہے۔ ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انشونس ایک قطعی غیر شرعی معاملہ ہے اور اس کی بنیاد سود ، جوا، اور دھوکہ پر رکھی گئی ہے لہذا یہ معاہدہ کرنا حرام ہے ۔ انشورنس کے حوالہ سے چند شبہات اور ان کا ازالہ انشورنس کو حلال اور جائز کہنے والے افراد چند کمزور دلائل کا سہارا لیتے ہیں جو کہ شبہات سے زیادہ کا درجہ نہیں رکھتے ہم ان شبہات میں سے نسبتاً چند شبہات کا جائز ہ لیتے ہیں: (1) انشورنس کا معاہدہ ، مضاربہ کی طرح ہے، انشورنس کمپنی ، صارف کے پیسوں کو کاروبار میں لگاتی ہے ، اور جب صارف کو کوئی حادثہ یا نقصان ہوتا ہے تو اس کاروبار سے ہونے والے منافع سے اس کا نقصان پورا کیا جاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مضاربہ ایک اسلامی معاہدہ ہے اور انشورنس اور مضاربہ میں کسی قسم کی مماثلت نہیں، بلکہ دونوں معاملوں میں کئی فرق ہیں، مثلاً: مضاربہ میں مال دینے والے شخص کا مال بدستور اس کی ملکیت میں رہتا ہے جبکہ انشورنس میں قسطیں ادا کرنے والے کا مال اس کی ملکیت سے نکل کر کمپنی کی ملکیت میں چلا جاتا ہے اور اس مال پر صارف کا کوئی حق نہیں ہوتا ۔ مضاربہ میں جو منافع ہوتا ہے وہ مال دینے والے اور کام کرنے والے دونوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے ، جبکہ انشورنس میں مال کے ذریعہ جو منافع ہوتا ہے وہ صرف کمپنی کا ہوتا ہے ، اور صارف کو اس میں سے اسی وقت مخصوص ادائیگی کی جاتی ہے جب اس کو کسی قسم کا نقصان پہنچے، اور اگر نقصان نہ ہو تو اسے کسی قسم کا منافع ادا نہیں کیا جاتا۔ (2) انشورنس جدید دور کا مسئلہ ہے اور شریعت کا قاعدہ ہے کہ تجارتی معاملات میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح
Flag Counter