Maktaba Wahhabi

127 - 534
(4) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی مضاربہ کی بنیاد پر مال دیاتھا ۔[1] (5)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ اور عبیداللہ ایک لشکر کے ساتھ عراق گئے ۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو ان کی ملاقات بصرہ کے گورنر ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے ہوئی ،انہوں نے کہا میری یہ خواہش ہے کہ تمھیں کوئی فائدہ پہنچا سکوں ۔میرے پاس بیت المال کا کچھ مال ہے جو میں مدینہ منورہ امیر المؤمنین کی خدمت میں بھیجنا چاہتا ہوں ، میں وہ مال تمھیں بطور قرض دے دیتا ہوں تم یہاں سے کچھ سامان خرید لو اور مدینہ منورہ میں وہ سامان بیچ کر اصل سرمایہ بیت المال میں جمع کرا دینا اور نفع خود رکھ لینا ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیالیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ اس پر راضی نہ ہوئے اور انہوں نے اسے مضاربہ قرار دے کر اصل سرمائے کے علاوہ ان سے آدھا نفع بھی وصول کیا ۔[2] (6) سنن بیھقی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ے فرمایا : ’’مضاربہ میں ہر سرمایہ کار اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا اور منافع طے شدہ تناسب کے مطابق تقسیم ہوگا۔‘‘ مضاربہ کے اصول وضوابط پہلا اصول مضاربہ میں دوفریق ہوتے ہیں ۔ (1) کاروبار کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والاجسے رَبُّ المال کہاجاتا ہے ۔ (2)کاروبار کرنے والا فریق جسے مضارب کہتے ہیں۔ رب المال یعنی سرمایہ فراہم کرنے والا براہ راست کاروبار یا مینجمنٹ میں حصہ تو نہیں لے سکتا البتہ اسے کاروباری پالیسیوں کے متعلق اعتماد میں لینا ،حسابات کی تفاصیل معلوم کر نا اور کاروبار کی مناسب نگرانی کرناتاکہ مضارب بد دیانتی اور غفلت کامرتکب نہ ہو اس کا بنیادی حق ہے جس سے کسی عالم ،فقیہ اور مجتہد کواختلاف نہیںکیونکہ یہ دونوں کاروبار میں ایک دوسرے کے شریک ہیں کہ ایک کی محنت اور دوسرے کا سرمایہ شامل ہے لہٰذا انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سرمایہ کار کو کاروبار کی نگرانی اور اس بات کو یقینی بنانے کااختیار
Flag Counter