Maktaba Wahhabi

167 - 534
خلاصہ کلام اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ میں بہت سی شرعی قباحتیں موجود ہیں جو مروجہ مرابحہ کے ’’ربح‘‘ (Markup) کو سودی بینکوں کے ’’ربا‘‘ (Interest) کی مانند کردیتی ہیں ۔ ان شرعی قباحتوں میں : (1) بینک کا صارف سے مرابحہ کی ابتداء میں لیا جانے والا وعدہ جس کا قانوناًالتزام کرایا جاتا ہے۔ جو مروجہ مرابحہ کو ’’ بيع مالا يملک ‘‘ جیسی ممنوع بیع کے حکم میں داخل کردیتا ہے۔ (2) بینک کا مرابحہ میں مطلوبہ سامان کی خریداری کے لئے صارف ہی کو وکیل مقرر کرنا۔جو اس معاملے کو سودی تمویل سے مشابہ کردیتا ہے۔ (3) بینک کا مروجہ مرابحہ میں منافع کا شرح سود کے ذریعہ تعین کرنا۔ (4) اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صارف پر لگایا جانے والا جرمانہ جسے صدقہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی شرعی قباتیں ہیں جن کی موجودگی میں کسی مزعومہ اسلامی بینک سے معاملہ کرنا حرام ٹھہرتا ہے۔ مرابحہ ! اسلامی بینکنگ پر ایک سوالیہ نشان ؟ اسلامی بینکنگ کے آغاز کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی تھی کہ اسلامی بینک سودی بینک کی طرح صرف تمویل پر منافع حاصل نہیں کریں گے ، بلکہ ان کا اصل کام تجارت ہوگا ، وہ صرف ایک مالیاتی ادارہ کی حیثیت سے کام نہیں کرے گا جو لوگوں سے پیسہ لے کر آگے فراہم کرے ۔ بلکہ وہ ایک حقیقی تجارتی ادارہ ہوگا جو کہ سرمایہ داروں سے شراکت داری کی بنیاد پر سرمایہ لے کر تجارت میں لگائے گا اور یہ شراکت داری نفع نقصان دونوں میں ہوگی، جہاں تک مرابحہ اور اجارہ کا تعلق ہے ، یہ معاملات انتہائی ہلکی سطح پر جاری رکھیں جائیں گے ، تاکہ تمویل کی ضروریات کو بھی پورا کیا جاسکے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مرابحہ خود بھی کوئی مثالی طریقہ تمویل (Mode of Financing) نہیں ، جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں : ’’یہ بات کسی صورت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ مرابحہ اصل کے اعتبار سے طریقہ تمویل نہیں ۔ یہ تو صرف سود سے بچنے کا ایک وسیلہ اور حیلہ ہے۔ ایسا مثالی ذریعہ تمویل نہیں جو اسلام کے
Flag Counter