Maktaba Wahhabi

168 - 534
معاشی مقصد کی تکمیل کرتا ہو‘‘۔[1]یعنی اس کا استعمال ایک حیلہ کے طور پر کرنا چاہئے ، دوسرے الفاظ میں اس کا استعمال انتہائی ضرورت کے وقت میں کرنا چاہئے اور جہاں اس سے بچنا ممکن ہو بچنا چاہئے، اس تناظر میں تو مرابحہ کا استعمال اسلامی بینکوں میں انتہائی کم ہونا چاہئے تھا۔ لیکن موجودہ حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں ، تقریباً تمام اسلامی بینکوں کا اصل کاروبار اب مرابحہ ہی رہ گیا ہے، کیونکہ یہ سودی بینکنگ کے مزاج کے بالکل قریب ہے ، اور جہاں پر تھوڑا سا فرق ہے، تھوڑا سا خطرہ ہے ، وہاں مزید حیلوں کا سہارا لے کر بالکل ہی سودی صورت کے مطابق بنا لیا گیا ہے ، تاکہ بازارِ سود میں لوٹ پوٹ ہونے والی عالمی معیشت میں جہاں کچھ لوگ اپنا دامن سود سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں بھی اسلامی نام سے دھوکہ دے کر ، سودی پراڈکٹ پر اسلام کا لیبل لگا کر بیچ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے پرزور حامی اور بانیوں میں شمار ہونے والے علماء اور تاجر حضرات بھی اب اس حقیقت کو ماننے لگے ہیں کہ اسلامی بینکنگ کو جس مزاج پر چلانے کا تہیہ کیا گیا تھا وہ اس میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ بطور مثال دو اقوال درج ذیل ہیں: (1) علامہ یوسف قرضاوی: جو کہ معروف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی بینکنگ کے پرزور حامی بھی ہیں اورقطر اسلامی بینک اور فیصل اسلامی بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئر مین ہیں کہتے ہیں: "أن المرابحة هي قريبة من التمويل الربوي"" مشيرا إلى أنه للأسف أصبحت المصرفية الإسلامية سجينة للمرابحة وأصبحت 95 في المائة من عملياتها في المرابحة – بحسب تقديراته" ’’مرابحہ سودی تمویل کے بہت قریب ہے اور افسوس ہے کہ اسلامی بینک مرابحہ کے’’قیدی ‘‘ بن گئے ہیں ، اور میرے اندازے کے مطابق اسلامی بینکوں کے تمام معاملات میں مرابحہ کی
Flag Counter