Maktaba Wahhabi

118 - 534
غررہے۔  اس کے علاوہ اس میں سود کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے ،جیساکہ سیدنا ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ اس کی ممانعت کی علّت بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’ذاک دراهم بدراهم والطّعام مرج‘‘ کہ ’’یہ درہم کے بدلے درہم کا لین دین ہے جبکہ(خریدا ہوابغیر قبضہ میں لیا)غلہ وہیں اپنی جگہ موجود ہے‘‘۔یعنی یہ سودا ایک طرح سے نقدی کالین دین ہی ہے ،جیسے کسی نے ایک لاکھ میں غلّہ خریدا اور اسے اپنے قبضہ میں لئے بغیراور منتقل کیے بغیر وہیں ایک لاکھ دس ہزار میں بیچ دیا گویا ایک لاکھ کی نقدی کےبدلہ دس لاکھ کی نقدی کاسودا کرکے منافع کمایا۔  امام ابنِ قیّم رحمہ اللہ نے اس حوالہ سے انتہائی مفید گفتگو فرمائی ہے ،آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ عمل ممنوع اس لئے ہے کہ: خریدار کاخریدی ہوئی چیز پراُسے منتقل کیے بغیر نہ تو قبضہ مکمل ہوا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ سے تعلق کُلّی طور پر ختم ہوا ہے ،لہٰذا جب فروخت کنندہ کو یہ معلوم ہو گاکہ اُس سے خرید کرآگے فروخت کرنے والے کو اس سے خوب نفع حاصل ہو رہا ہے تو وہ قبضہ دینے میں حیل وحجت سےکام لےگایاپھر وہ سودا ختم بھی کرسکتا ہےاورہو سکتا ہےکہ سودا ختم کرنے کے لئےبات تنازع تک اور پھر عداوت و دشمنی تک جا پہنچے جیسا کہ واقعات اس کے شاہد ہیں ۔ چنانچہ حکمت پر مبنی شریعت ِکاملہ کی یہ خوبی ہے کہ اس نے خریدار پر یہ شرط عائد کردی ہے کہ وہ خریدی گئی چیز پراس وقت تک کوئی تصرّف نہ کرے جب تک اُسےفروخت کنندہ سے لیکر اپنے قبضہ میں نہ لے لےاور فروخت کنندہ سے اس کامکمل تعلق ختم نہ ہوجائے، تا کہ وہ سودا فسخ(ختم)کرنےیا قبضہ نہ دینے کا سوچ بھی نہ سکے ۔یہ وہ حِکمتیں وفوائد ہیں جن کو شارع نے نظر انداز نہیں کیا،یہاں تک کہ شریعت کا علم نہ رکھنے والے تاجر وکاروباری حضرات بھی اُنہیں تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیا ل میں بھی ایک طرف مصلحت اس کی متقاضی ہے اوردوسری طرف معاملات میں موجودفساد و خرابیوں کا خاتمہ بھی اسی طرح ممکن ہے۔[1] بعض اہلِ علم کے نزدیک مکمل قبضہ کے لئے خریدی گئی شےکا کسی دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری نہیں بشرطیکہ فروخت کنندہ کی طرف سے خریدار کو خریدی گئی شےمیں تصرّف کا مکمل اختیار حاصل ہو اس طور پر کہ:
Flag Counter