Maktaba Wahhabi

145 - 534
ایسے وعدہ کو پورا کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ شخص اس وعدہ کی بناء پر اس کام میں داخل ہوا ہے ، جہاں تک محض وعدہ کا تعلق ہے تو اسے پورا کرنا مکارم اخلاق سے تعلق رکھتا ہے لیکن واجب نہیں ہے‘‘۔[1] جہاں تک عقود معاوضات (یعنی تجارتی معاملات) کا تعلق ہے تو اس میں فقہاء مالکیہ نے وعدہ ایفاء کو واجب قرار نہیں دیا ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس معاملہ میں وعدہ کو شامل کرکے اس کے ایفاء کو مالکیہ کی طرف نسبت کر کے لازم قرار دیا جارہاہے ، مالکیہ نے تو اس معاملہ کو ہی سرے سے ناجائز قرار دیا ہے اگرچہ وہ بغیر وعدہ کے ہی کیوں نہ ہو!!۔ اما م ابن جزی فرماتے ہیں : ’’ بیع عینہ کی تین اقسام ہیں : پہلی قسم : یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ تم فلاں سامان میرے لئے دس درہم میں خرید لو میں تمہیں کچھ عرصہ بعد پندرہ درہم دوں گا۔ یہ سود ہے اور حرام ہے‘‘۔[2] امام ابن رشد مالکی  فرماتے ہیں : ’’ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تم میرے لئے فلاں سامان دس درہم نقد میں خرید لو میں تم سے بارہ درہم ادھار میں خرید لوں گا، تو یہ معاملہ حرام ہے‘‘[3]۔ یہی بات دیگر فقہاء مالکیہ نے بھی کہی ہے جن میں الباجی[4]، ابن عبدالبر[5] اور قاضی عیاض رحمہم اللہ [6]جیسے جلیل القدر فقہاء شامل ہیں۔ اور جس حرام معاملہ کی ان علماء نے نشاندہی کی ہے وہ بعینہ مروجہ مرابحہ کی صورت ہے۔تو ایک ایسے معاملہ میں وعدہ کے لازمی ایفاء کی نسبت ان علماء کی طرف کیسے کی جاسکتی ہے جس معاملہ کو انہی علماء نے صریح حرام قرار دیا ہو؟ عقود معاوضات میں الوعد الملزم(لازمی ایفاء کا وعدہ ) کی مالکیہ کی طرف نسبت کو بہت سے علماء نے غلط قرار دیا ہے ، ان میں سے اسلامی بینکاری کے ماہر علماء میں ڈاکٹر سلیمان الاشقر[7]، ڈاکٹر رفیق
Flag Counter