Maktaba Wahhabi

146 - 534
یونس المصری[1]، محترم ربیع محمود الروبی[2]، علامہ عبداللہ بن بیہ[3]، ڈاکٹر علی احمد سالوس[4]، فضیلۃ الشیخ بکر ابو زید[5] جیسے جلیل القدر علماء بھی شامل ہیں۔ (دوسری دلیل ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’لا ضرر ولاضرار‘‘۔ کہ ’’ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ خود نقصان اٹھاؤ‘‘۔ اس حدیث کی روشنی میں صارف سے لیا جانے والاوعدہ بالکل جائز ہے، کیونکہ اگر بینک صارف کے کہنے کے مطابق سامان خرید لے پھر صارف سامان لینے سے انکاری ہوجائے اور بینک کو کوئی اور ایسا صارف نہ ملے جو بینک سے یہ سامان خرید ے تو بینک کو بہت نقصان ہوگا، اسی لئے بینک صارف سے وعدہ لیتا ہے ، کیونکہ بینک نے یہ سامان صارف کے کہنے پر خریدا تھا ، اپنے لئے تو نہیں خریدا !، لہٰذا صارف کے انکاری ہوجانے پر بینک کو ہونے والے نقصان کا ذمہ دار صارف ہے اور اسے یہ نقصان برداشت کرنا چاہئے۔ اس دلیل کا جواب چند نکات کی صورت میں دینا چاہوں گا:  اگر بینک نے یہ سامان صارف کے لئے خریدا ہے تو بینک تو صارف کا وکیل ہوا ، اور اس صورت میں بینک کا سامان کی قیمت ادا کر کے صارف سے اس سے زیادہ وصول کرنا قرض دے کر سود طلب کرنے کے مترادف ہے اور قطعی حرام ہے۔  اگر بینک نے یہ سامان اپنے لئے خریدا ہے تو صارف اس کے نقصان کاذمہ دار نہیں ہے ، کیونکہ اگر صارف وہ سامان خریدنے سے انکار کردیتا ہے اور بینک وہ سامان کسی اور کو بیچے اور اس میں بینک کو منافع ہو تو کیا وہ منافع بینک اپنے پاس رکھے گا یا صارف کو دے گا؟۔اگر نقصان صارف نے برداشت کرنا ہے تو اصولی طور پر منافع بھی صارف ہی کو ملنا چاہئے، اس منافع کا تذکرہ بینک کیوں نہیں کرتا؟۔  اگر بینک اس پورے معاملہ میں رسک نہیں اٹھاتا تو پھر منافع کا حقدار کیسے ہوسکتاہے؟۔ فضیلۃ الشیخ بکر ابو زید  بیع مرابحہ کے جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ یہ جواز اس لئے ہے کہ
Flag Counter