Maktaba Wahhabi

148 - 534
معاہدہ کی خصوصیت نہیں کہ جسے وعدہ کے ساتھ منطبق کردیا گیا ہے؟۔  اسلامی بینکوں میں لیزنگ جسے اجارہ المنتہیہ بالتملیک کہا جاتا ہے میں صارف سے یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر صارف نے ایک مخصوص عرصہ تک کرایہ ادا کیا تو بینک اسے وہ چیز جس کا وہ کرایہ ادا کررہا تھا بالکل معمولی قیمت میں بیچ دے گا یا ہدیہ کردے گا۔ کسی چیز کو بیچنا یا عوض کے بدلہ ہدیہ کرنا دونوں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں میں سے ایک معاہدہ کا ذکر اجارہ کے معاہدہ میں ضرور ہوتا ہے ، یعنی پھر ایک معاہدہ میں دو معاہدے (1) اجارہ کا معاہدہ۔ (2) ہدیہ یا بیچنے کا معاہدہ۔ اور اس معاملہ کو بھی لازمی وعدہ کہہ کر حلال کر لیا جاتا ہے۔ مضاربہ میں سرمایہ کی ضمانت لینا سود ہے ، اسلامی بینک اول تو کسی سے مضاربہ کرتے نہیں ہیں اگر کسی کو مضاربہ پر سرمایہ فراہم کرتے ہیں تو اس سے یہ وعدہ لیتے ہیں کہ وہ ان کا سرمایہ انہیں ضرور لوٹائے گا، اور اس سود کو بھی لازمی وعدہ کا نام دے کر جائز کرلیا جاتا ہے۔ مرابحہ میں بھی صارف سے لئے جانے والا وعدہ جو کہ دراصل معاہدہ ہے اس سے بہت سی شرعی قباحتیں جنم لیتی ہیں : (1) ملکیت میں آنے سے پہلے چیز کی فروخت جب صارف سے یہ وعدہ لیا جاتا ہے کہ وہ بینک سے مطلوبہ سامان ضرورخریدے گا تو یہ وعدہ بذات خود ایک معاہدہ کی حیثیت اختیارکر جاتا ہے کیونکہ معاہدہ میں بھی وہی خصوصیات ہوتی ہیں جو اس وعدہ میں پائی جارہی ہیں ، یعنی سامان کی تعیین ، قیمت کا تعین ، ادائیگی کا طریقہ کار، ایجاب و قبول ،یہ سب کچھ اس وعدہ میں شامل ہوتا ہے ، اور پھر بعد میں جو الگ سے مرابحہ کا ایگریمنٹ کیا جاتا ہے وہ صرف دکھلاوا ہوتا ہے، کیونکہ صارف تو اس وعدہ کے ذریعہ سامان خریدنے کا پابند ہوچکا ہوتا ہے۔ تو اس میں سب سے پہلی قباحت یہ آتی ہے کہ بینک جب صارف سے یہ وعدہ لے رہا ہوتا ہے اس وقت مطلوبہ سامان بینک کے پاس موجود نہیں ہوتا تو گویا کہ بینک صارف کو وہ چیز بیچ رہا ہے جس کا وہ مالک نہیں اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔حکیم بن حزام  فرماتے ہیں : ’’ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،
Flag Counter