Maktaba Wahhabi

158 - 166
کام کم ازکم مغرب میں اسلامی قانون اور تہذیب میں کسی بھی قسم کی مزید تحقیق کے لیے ایک مصدر بن گیا ہے: It will become the foundation for all future study of islamic civilization and law, at least in the West. 6 کیولسن N. J. Coulson کا خیال ہے کہ شاخت نے اسلامی قانون کے بارے ایک ایسی تحقیق پیش کر دی ہے جس کو چیلنج کرنا ناممکن امر ہے: Schacht has formulated a thesis of the origins of Sharia law which is irrefutable in its broad essentials. 7 شاخت کے نقطہ نظر کے بارے مستشرقین اس قدر متعصب ہوگئے تھے کہ جب امین المصری مرحوم نے یونیورسٹی آف لندن میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے شاخت کی تحقیقات کا تنقیدی جائزہ لینے کا موضوع پیش کیا تو وہ اس وجہ سے نامنظور کر دیا گیاکہ شاخت کی تحقیق ناقابل تنقید ہے۔ 8 شاخت کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ توکوئی نیا قانونی نظام وضع کرنے کا پروگرام تھا۔ نہ ہی دین اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کو ئی قانونی حیثیت تھی اور نہ ہی وہ منبع قدرت (source of authority) تھے۔9 اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ قدیم فقہی مذاہب کی بنیاد دوسری وافعال کا کسی بھی قسم کا تعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال سے نہیں تھا۔) 10شاخت کی ان قدیم فقہی مذاہب سے مراد اہل صدی کے اوائل میں مسلم معاشرے میں سنت کے نام سے ہونے والے اعمال وافعال (living tradition) پر رکھی گئی جبکہ ان اعمال الرائے کا مکتبہ فکر ہے جس کا مرکز کوفہ تھا اور اس کی سرپرستی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرما رہے تھے۔ شاخت کے بقول اہل الرائے کے مکتبہ فکر کا مصدرِ شریعت مسلم معاشروں کا تواتر عملی تھا اور سنت کی اصطلاح اسی تواتر عملی کے معنی میں استعمال ہو رہی تھی۔ اس کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ان قدیم فقہی مذاہب یعنی اہل الرائے وغیرہ نے ایک ایسی حزب اختلاف (opposition) پیدا کر دی جنہوں نے اپنا فقہی موقف ثابت کرنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینی حیثیت (legal authority) کے بارے بہت سی
Flag Counter