Maktaba Wahhabi

4 - 166
ڈاکٹر احمد عبد الرحیم السابح ’استشراق‘ کو ایک ایسی آئیڈیالوجی قرار دیتے ہیں جس کا مقصد اسلام کے بارے میں پہلے سے طے شدہ کچھ خاص قسم کے تصورات کو رائج کرنا ہے، نہ کہ کسی علمی تحریک میں اشتراک واعانت۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ولکن یمکن القول إن الاستشراق فی دراسته للإسلام لیس علما بأیّ مقیاس علمی، وإنما هو عبارة عن أیدیولوجیة خاصة یراد من خلالها ترویج تصورات معینة عن الإسلام، بصرف النظر عما إذا کانت هذه التصورات قائمة علی حقائق أو مرتکزة علی أوهام وافتراء ات۔‘‘5 ’’ یہ کہنا درست ہے کہ ’استشراق‘ اسلام کے مطالعہ کے پہلو سے کسی بھی اعتبار سے کوئی علم نہیں کہلا سکتا، بلکہ یہ ایک خاص قسم کی آئیڈیالوجی ہے جس کا مقصد اسلام کے بارے میں کچھ خاص قسم کے تصورات کی نشر واشاعت ہے، چاہے اسلام کے بارے میں وہ قائم کیے گئے تصورات حقائق پر مبنی ہوں یااوہام اور جھوٹ پر۔‘‘ فلسطینی نژاد امریکی ایڈورڈ سعید (۱۹۳۵۔۲۰۰۳ء) کہ جن کی کتاب "Orientalism: Western Conceptions of the Orient" اپنے موضوع پر ایک بنیادی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے،نے استشراق کی تین تعریفات بیان کی ہیں جو درحقیقت اس کے تین پہلو ہیں۔ ان میں سے تیسری درج ذیل ہے: "Orientalism can be discussed and analyzed as the corporate institution for dealing with the Orient--dealing with it by making statements about it, authorizing views of it, describing it, by teaching it, settling it, ruling over it: in short, Orientalism as a Western style for dominating, restructuring, and having authority over the Orient." 6 ’’استشراق کا ہم اس پہلو سے بھی مطالعہ اور تجزیہ کر سکتے ہیں کہ یہ مشرق سے تعامل کے لیے ایک ایسا منظم[مغربی] ادارہ ہے جو مشرق کے بارے بیانات جاری کر کے، اس کے نظریات کو کنٹرول کر کے، اس کی وضاحت کر کے، اسے
Flag Counter