Maktaba Wahhabi

73 - 166
ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿وَهٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ﴾37 ’’ اور یہ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں ہے۔‘‘ عربی قرآن سے مراد، قرآن مجید کا اہل عرب کے محاورے میں نزول ہے۔ لہٰذا قرآن مجید اور اہل عرب کے اسلوبِ کلام میں چند محاوروں کی مماثلت ایک ممکن امر ہے۔ ادنیٰ سے غور وفکر سے ان حنفاء اور قرآن مجید جیسے کلام میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید ایک مکمل نظام حیات کو بیان کر رہا ہے، ایک جامع شریعت ہے۔ عقائد،عبادات، عائلی زندگی، معاشرت، معیشت اور سیاست وغیرہ سے متعلق ایک مکمل فکر پیش کرتا ہے۔ اس مفصل وجامع اور فصیح وبلیغ کلام، کہ جس کا مقابل لانے سے اہل عرب قاصر تھے، کو دو چار جملوں کی مشابہت کی وجہ سے حنفاء کے کلام سے ماخوذ قرار دینا دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ قُس بن ساعدہ نے ہجرت سے ۲۳ برس قبل ۶۰۰ء کے لگ بھگ وفات پائی ہے۔جب فتح مکہ کے موقع پر اس کے قبیلہ ’اِیاد‘ کا وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے اس کے بارے میںپوچھا۔ انہوں نے بتلایا کہ اس کی وفات ہو چکی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں نے اسے ایک مرتبہ عکاظ کے بازار میں خطبہ دیتے دیکھا تھا لیکن مجھے اس کے الفاظ یاد نہیں ہیں۔ اس پر ایک اعرابی نے کہا کہ مجھے یاد ہے اور اس نے اس خطبہ کو وہاں آپ کی مجلس میں نقل کیا۔38 ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے اس خطبہ کے الفاظ دہرائے لیکن ان الفاظ میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کے ذخیرئہ الفاظ میں ہو39۔ اسی طرح ان حنفاء میں سے ایسے بھی تھے جو ایک نبی کے آنے کی خبر دے رہے تھے لیکن حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے،جیسا کہ اُمیہ بن ابی صلت کا معاملہ ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے زیدبن عمرو بن نفیل کو کعبہ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا اور وہ یہ کہہ رہے تھے اے قریش کی جماعت! میں نے آج دین ابراہیمی پر صبح کی ہے۔ اے اللہ تعالیٰ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں کیسے عبادت کروں کہ تجھے پسندآ جائے تو میں ضرور کرتا لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ پھر وہ اپنی سواری پر
Flag Counter