Maktaba Wahhabi

137 - 169
درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو سنے، تو وہ اِس کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بغیر کسی بات کا چرچا شروع کر دینا، ایک خطرناک عادت ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۰۸ء، ص ۱۱) اب معلوم نہیں خان صاحب کی اِس تحقیق سے مراد کیا ہے؟ کیا صرف اتنی تحقیق کافی ہے کہ یہ معلوم کر لیا جائے کہ یہ روایت’موضوع،(fabricated)تو نہیں ہے؟ یا حدیث کی صحت وضعف کی بحث بھی اِس تحقیق میں شامل ہے۔ جہاں تک خان صاحب کے ذاتی رویے کا معاملہ ہے تو وہ اپنے بعض سطحی قسم کے نظریات کی تائید کے لیے ’منکر، روایات سے بھی دلیل پکڑ لیتے ہیں۔ ذیل میں ہم اِس بارے دو مثالوں کے بیان پر اکتفا کریں گے: 1۔خان صاحب کا کہنا ہے قرآن بغیر تدبر پڑھنے کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہے۔ اور اِس مسئلہ کی دلیل کے طور اُنہوں نے(( لاخیر فی قراء ۃ لا تدبر فیھا))والی روایت کو بیان کیا ہے۔(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء، ص۵) علامہ البانی رضی اللہ عنہ نے اِس روایت کو’منکر‘ قرار دیا ہے۔(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ: ۲؍۱۶۲)جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((من قرأ حرفا من کتاب اللّٰه فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشر أمثالھا، لا أقول الم حرف، ولکن ألف حرف، ولام حرف، ومیم حرف))(سنن الترمذی، أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء فیمن قرأ حرفا من القرآن ما لہ من الأجر) ’’ جس نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا، اُس کے لیے ایک نیکی ہے۔ اور نیکی دس گُنا کے برابر ہے۔ اور میں یہ نہیں کہتا کہ ’الم، ایک حرف ہے بلکہ ’الف، ایک حرف ہے۔اور ’ لام‘ایک حرف ہے۔ اور ’میم‘ایک حرف ہے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’الف‘ایک حرف ہے اور قرآن مجید کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ہیں۔ اب ’الف‘کا معنی کیا ہے؟ کچھ نہیں ہے۔ پس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جس نے قرآن مجید میں سے ’الف‘ پڑھا، اُسے دس نیکیاں مل گئیں جبکہ ’الف‘ کا کوئی معنی بھی نہیں ہے۔ اِسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آیت کی مثال دی ہے وہ حروف مقطعات میں سے ہے کہ جن کا معنی نہ تو معلوم ہے اور نہ ہی
Flag Counter