Maktaba Wahhabi

155 - 169
ساتھ بے اعترافی کا معاملہ ہے، اور خدا کے ساتھ یہ بے اعترافی(یعنی ناشکری)بلاشبہ خدا کی اس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔(ماہنامہ الرسالہ: اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص ۳۵) ایک اور مقام پر انسان کے ذہنی تناؤ اور اس کے اسباب کے بارے لکھتے ہیں: ’’موجودہ زمانہ کا شاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کسی انسان کو ذہنی سکون حاصل نہیں۔ تقریباً ہر آدمی ذہنی تناؤ اور فکری الجھن میں مبتلا ہے۔ خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ سامان والا ہو یا بے سرو سامان والا۔ پچھلے سال بنگلور کے ایک کمپیوٹر انجینئر کو اُس کی ایک ایجاد پر امریکہ کی طرف سے ۷۵۰ ملین ڈالر اچانک مل گئے۔ مگر اِس غیر معمولی دولت نے اُس کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دیا یہاں تک کہ صرف ایک سال کے اندر اس کا یہ حال ہو گیا کہ اُس کی نیند ختم ہو گئی اور رات کے وقت وہ نیند کی گولیاں کھا کر سونے لگا۔‘‘(صبح کشمیر: ص۱۱۶) تجویز اور مشورہ خان صاحب اپنی زندگی کو صرف تذکیری نوعیت کے کام تک ہی محدود رکھتے تو اُمت پر اُن کا یہ بہت بڑا احسان ہوتا اور اُمت کے جمیع مکاتب فکر میں اُنہیں قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا، لیکن اُنہوں نے اُمت کی فکری رہنمائی کا جو بیڑا اٹھا لیا ہے تو اَمر واقعہ یہ ہے کہ وہ نہ تو علمی وفکری طور اِس قابل ہیں اور نہ ہی اخلاقی وشخصی اعتبار سے اِس کی اہلیت رکھتے ہیں۔خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ آدمی کوئی ایسی ذمے داری ہر گز قبول نہ کرے جس کے لیے وہ اپنے آپ کو اہل نہ پاتا ہو۔ اِس لیے کہ نااہلی کے باوجود اگر وہ کسی اجتماعی ذمہ داری کو قبول کرتا ہے تو صرف بگاڑ میں اضافے کا باعث بنے گا۔ مثال کے طور پر ایک شخص مخلص ہے، مگر وہ سیاست کا تجربہ نہیں رکھتا، تو اُس کو ہر گز سیاست کے میدان میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک شخص روایتی عالم ہے، لیکن اُس نے جدیدیات کا براہ راست مطالعہ نہیں کیا ہے تو اُس کو جدید طبقے کی رہنمائی کا کام نہیں سنبھالنا چاہیے۔ ایک شخص کی تربیت درس وتدریس کے ماحول میں ہوئی ہے تو اُس کو تحریک جہاد کا نمائندہ نہیں بننا چاہیے۔ ایک شخص صرف مسجد اور مدرسے کے ماحول کو جانتا ہے تو
Flag Counter