Maktaba Wahhabi

140 - 169
ہے اور مجتہد کا فعل مصدر شریعت کیسے بن سکتا ہے؟ کیونکہ مجتہد کا فعل ایک انسانی کوشش ہے جس میں خطا وصواب کے دونوں پہلو موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُصولیین نے کتب اُصول میں اجتہاد کی بحث کو’ مصادر شریعت، کی بحث کے بعد علیحدہ سے بیان کیا ہے۔ اُصول فقہ کا کل خلاصہ چار ابحاث ہیں۔ حکم شرعی، مصادر شریعت، قواعد لغویہ عربیہ اور اجتہاد۔ انسان کی دنیا وآخرت کی بھلائی اللہ کے حکم کی اتباع میں ہے تو پہلی بحث یہ ہوتی ہے کہ حکم الہٰی کیا ہے اور کتنی قسم پر مشتمل ہے؟ جب حکم اور اُس کی اقسام کا تعارف ہو گیا تو اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اللہ کا یہ حکم کہاں تلاش کریں یا ہمیں کہاں ملے گا تو اِس کا جواب مصادرِ شریعت کی بحث میں اُصولیین نے دیا۔ جب یہ بھی معلوم ہو گیا کہ حکم شرعی کہاں ہے تو اب تیسرا سوال یہ سامنے آیا کہ حکم شرعی کو مصادرِ شریعت سے کن اُصول وضوابط کی روشنی میں اخذ کریں گے تو اِس کے لیے قواعد لغویہ عربیہ کی بحث وجود میں آ گئی۔ اور اب چوتھا سوال یہ پیدا ہوا کہ حکم شرعی اور مصادرِ شریعت بھی معلوم ہو گئے، اور وہ قواعد بھی معلوم ہو گئے کہ جن کو استعمال کرتے ہوئے حکم شرعی ، مصادرِ شریعت سے نکالنا ہے تو اِس اخذ کرنے کے عمل کا اصطلاحی نام کیا ہو گا اور یہ کام کرنے کی اجازت کیا ہر کسی کو ہو گی یا مخصوص اہلیت رکھنے والے اصحاب کو؟ پس یہ آخری بحث اجتہاد اور مجتہد کی شرائط کی بحث کہلائی۔ مجتہدجب مصادرِ شریعت پر غور وفکر کرتا ہے اور اُن میں سے حکم شرعی اخذ کرتا ہے تو مجتہد کا یہ عمل ’اجتہاد‘کہلاتا ہے جبکہ جسے وہ اخذکرتا ہے وہ ’فقہ‘ کہلاتی ہے۔ پس کتاب وسنت کی نصوص’شریعت‘ کہلاتی ہیں۔ اُن میں مجتہد کا غور وفکر’اجتہاد‘ہے اور اِس غور وفکر کا نتیجہ یا ماخوذ(output)’فقہ‘ہے۔ خان صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’اجتہاد سے مراد یہ ہے کہ قرآن وسنت جو اسلام کے اصل مصادر ہیں، اُن پر غور کر کے قیاسی یا استنباطی طور پر شریعت کے نئے احکام معلوم کرنا…اجتہاد سے مراد وہی فکری عمل ہے جسے قرآن(النساء:۸۳)میں استنباط کہا گیا ہے۔فقہاء کی اصطلاح میں اِسی کا نام قیاس ہے۔‘‘(وحید الدین خان، مسائل اجتہاد، مکتبہ الرسالہ، نئی دہلی، ص۱۸) سوال یہ ہے کہ ’فکری عمل، کیسے مصدر(source)بن گیا؟ عمل تو ایک فعل کا نام ہے نہ کہ
Flag Counter