Maktaba Wahhabi

142 - 169
وہ جو فلسطین کی آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد میں سرگرم عمل ہیں یا اِس تحریک آزادی کی تائید کرتے ہیں۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’فلسطین کا مسئلہ اپنی فعال صورت میں ۱۹۴۸میں شروع ہوا۔ اِس کے بعد تمام دنیا کے مسلم رہ نما منفی رد عمل میں مبتلا ہوگئے۔ مسلمانوں کے درمیان نفرت اور تشدد کی تحریکیں چل پڑیں۔ اِس نفرت اور تشدد کا پہلا نشانہ اسرائیل تھا اور اِس کے بعد برطانیہ اس کا نشانہ بن گیا، کیوں کہ برطانیہ نے بال فور ڈکلریشن کے تحت، اسرائیل کو قائم کیا تھا۔ اِس کے بعد نفرت اور تشدد کا یہ مسلم سیلاب امریکا کے خلاف متحرک ہو گیا، کیوں کہ امریکا، فلسطین کے اِشو پر اسرائیل کی سرپرستی کرنے لگا تھا۔ اِس کے بعد مسلمانوں کے منفی جذبات کا رخ انڈیا جیسے ملکوں تک پھیل گیا جو اسرائیل سے مصالحت کا تعلق قائم کیے ہوئے تھے، یہاں تک کہ منفی جذبات سے بھرے ہوئے یہ مسلمان خود مسلم حکومتوں کے خلاف ہو گئے، کیوں کہ مسلم حکومتیں اسرائیل کے خلاف وہ انتہائی اقدامات نہیں کر رہی تھیں جو مسلمان اُن سے چاہتے تھے۔ مذکورہ حدیث رسول میں پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ’ارض، ظلم وجَور سے بھر دی جائے گی اور پھر اُس کو قسط اور عدل سے بھرا جائے گا۔ یہ ایک تعبیری اسلوب ہے۔ اِس سے مراد یہی مذکورہ صورت حال ہے۔ موجودہ زمانے میں عملاً یہی پیش آیا ہے کہ ارض فلسطین کے حوالے سے، ساری دنیا کے مسلمان نفرت اور تشدد میں مبتلا ہو گئے۔ اِسی نفرت اور تشدد کو ’ظلم وجور‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اِس کے بعد حدیث کے مطابق، جو ہونا ہے، وہ یہ کہ ’ارض ، کو قسط اور عدل سے بھر دیا جائے۔ یہ اَمن کی تعبیر ہے۔ اِس حدیث میں قسط اور عدل سے مراد اَمن پر مبنی معتدل فضا ہے جو مسلمانوں کے لیے دعوت کے مواقع کو کھولنے والی ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص۳۰۔۳۱) خان صاحب کے بقول مسلمانوں کی تحریک آزادی سے پھیلے والنے اِس ظلم وستم کو مہدی آ کر ختم کریں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مہدی، اَمن کی تعبیر پیش کرے گا اور دعوت کے ذریعے مسلمانوں کے پھیلائے ہوئے ظلم وستم کا خاتمہ کرے گا۔ اب اَمن کا وہ نمائندہ(ambassador of peace)اور داعی کونہے جو مہدی زمان ہے ؟ اِس کتاب کے سابقہ ابواب کے مطالعہ کی روشنی میں ہمارے قارئین کے لیے یہ نتیجہ نکالنا بالکل مشکل نہیں
Flag Counter