Maktaba Wahhabi

90 - 169
جلیل احسن ندوی رحمہ اللہ کے ساتھ ۱۹۶۲ء میں جو خط وکتابت ہوئی اُس میں مولانا جلیل احسن ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ رام پور میں کئی ایک اصحاب سے(میری گفتگو ہوئی تھی)اُن سب اصحاب کی یہ متفقہ رائے تھی کہ آپ ایک بات جب اپنے ذہن میں جما لیتے ہیں،تو پھر اُس میں کسی تبدیلی کے لیے سوچنا بالکل خارج از بحث ہو جاتا ہے۔بھائی خدا کرے یہ بات غلط ہو، میرا بھی اندیشہ غلط ہو۔ لیکن اگر بات ایسی ہے جیسی کہ سنی ہے،اور جس کاخدشہ آپ کی یہ تحریر دیکھ کر مجھے بھی لاحق ہوا ہے،تو یہ طریقہ طالبین حق کا طریقہ نہیں ہے،اِس پر آپ کو سوچنا چاہیے۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص۴۶) مولانا ابو اللیث ندوی رحمہ اللہ کے نام ایک خط میں خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ میرے فکری اختلاف کو دورکرنے کی کوشش تو پوری طرح نہیں کی گئی، البتہ اِس قسم کی باتیں خوب مشہور ہو رہی ہیں کہ یہ تو ہٹ دھرم آدمی ہیں۔ جس چیز کو پکڑ لیتے ہیں پھر اُسے نہیں چھوڑتے ۔ ،،(تعبیر کی غلطی: ص ۹۶) ہم یہ واضح کرنا چاہ رہے ہیں کہ خان صاحب تحریکی عمل کے ردعمل میں جو اِس قدر انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اُس کا تاریخی پس منظر یا اسباب وعوامل کیا ہیں؟ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا یہ اسباب وعوامل اِس بات کا جواز فراہم کرتے ہیں کہ اجتماعی اسلامی تعلیمات، سیاست،نفاذِ شریعت،جہاد،اسلامی تحریک،خلافت وامامت کے حوالہ سے خوارج(Kharijites)کی سی انتہاپسندی کی حد تک مخالفت کا اظہار کیا جائے؟ تو اِس کا جواب قطعاًنفی میں ہے۔ خان صاحب کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ردّ عمل کی نفسیات اور مزاج کی ضد ومخالفت نے خان صاحب کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ دنیا جہاں کے موضوعات پر وہ بڑے ہی سکون،اطمینان اورٹھہراؤ سے گفتگو کر رہے ہوں گے، بُرے سے بُرے آدمی میں بھی خیر کا کوئی ممکنہ پہلو دکھا دیں گے ،لیکن جیسے ہی سیاست،خلافت،امامت،نفاذِ شریعت، اسلامی تحریک یا فکر مودودی کی بات آئے گی تو ان کی سوئی ۱۸۰ ڈگری گھوم جائے گی ۔ ردّ عمل کی نفسیات،ضد و مخالفت اور غیظ وغضب سے بھرے ایسے ایسے بیانات جاری کریں گے کہ جن کا صدور کسی صاحب عقل سے شاید استثنائی حالات میں بھی ممکن نہیں ہے۔ مثلاً
Flag Counter