Maktaba Wahhabi

141 - 315
امت میں سے ہر اس شخص کے لیے جائز ہونا چاہیے جسے اپنی خواہشات پر قابو ہو۔ اس لیے تاویلوں کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو جائز قراردینا نا مناسب اقدام ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ ہم بغیر کسی تاویل کے ہی تسلیم کر لیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کا عمل کیا اس لیے یہ عمل جائز ہے۔ بغیر کسی شہوت کے کسی عورت سے مصافحہ کرنے کا جواز اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی اس حدیث سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جس کا تذکرہ ہم اوپر کر آئے ہیں اور جس میں اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ کسی بیعت کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے ہاتھ ملایا تھا۔ ان تمام روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر کسی شہوت اور جنسی لذت کے کسی عورت سے ہاتھ ملانا اور مصافحہ کرنا شرعاً جائز ہے۔ خاص کر ایسی صورت حال میں کہ دونوں کے درمیان کوئی قریبی رشتہ داری ہو اور دونوں عرصہ کے بعد ملے یا عیدوبقرعیدوغیرہ کا موقع ہو۔ لیکن مناسب یہ ہو گا کہ مصافحہ کا جواز صرف ضرورت کی حد تک محدود ہو۔ اسی وقت مصافحہ کیا جائے جب اس کی شدید ضرورت ہو مثلاً یہ کہ مصافحہ نہ کرنے کی صورت میں کدورت اور دشمنی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سوال میں لکھا ہے۔ اور مناسب یہ ہوگا کہ عورتوں سے مصافحہ کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ البتہ اگر ان کی طرف سے پہل ہو تو پھر مصافحہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مصافحے کے جواز کا میرا یہ فتوی اس شخص کے لیے ہے جس کے لیے مصافحہ کرنا ناگزیر ہو جائے۔ جیسا کہ سوال کرنے والے نے اپنی حالت لکھی ہے اور ایسے شخص کو مصافحہ کرتے ہوئے یہ نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کوئی خلاف شرع کام کر رہا ہے۔ اور نہ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے اس عمل کو خلاف شرع قراردے کیوں کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور میں نے نہایت ایمان داری کے ساتھ اور تمام دلائل کی روشنی میں اجتہاد کر کے
Flag Counter