Maktaba Wahhabi

143 - 315
کا مکلف ہے۔ اسی طرح ایک عورت بھی کام کرنے اور عمل کرنے کی مکلف ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ " (آل عمران: 195) پس ان کے رب نے ان کی پکارسنی اور فرمایا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عورت انسانی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہے۔ اگر ہم نے عورتوں کو کام سے روک کر گھروں میں بٹھا دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی آبادی کا پچاس فیصد حصہ ناکارہ پرزوں کی طرح غیر مفید اور برباد ہوجائے گا ۔ اور اسلام جیسے مکمل اور سچے دین سے یہ تصور ناممکن ہے کہ وہ انسانی آبادی کے نصف حصے کونا کارہ اور برباد کر دینے کی ترغیب یا حکم دے گا۔ کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ عورت دنیا کی تمام لذتوں سے لطف اندوز تو ہو لیکن خود اتنی بے صلاحیت اور ناکارہ ہو کہ دنیا والوں کو اس کی ذات سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ ہو؟ کیا یہ معقول بات ہوگی کہ عورت دنیوی ترقیوں اور نت نئی ایجادات سے استفادہ تو کرے لیکن ان ترقیوں میں اس کا اپنا کوئی رول نہ ہو؟ یہ کس قدر عظیم اور ناقابل تلافی نقصان والی بات ہوگی کہ انسانی آبادی کے نصف حصے کو گھروں میں بٹھا کرنا کارہ بنا دیا جائے۔ اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورتوں کو چاہیے کہ گھروں میں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور اپنی صلاحیتوں کو زنگ نہ لگنے دیں بلکہ مردوں کی طرح انھیں بھی کام کرنا چاہیے اور معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنے حصے کی صلاحیتں پیش کرنی چاہئیں۔ تاہم اگر عورت کی جسمانی ساخت اور اس کی جملہ دارباتوں پر غورکیا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورت کا سب سے عظیم کام اور اس کی سب سے نمایاں ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح تعلیم وتربیت کرے کہ مستقبل میں یہ بچے معاشرے کی تعمیر و
Flag Counter