Maktaba Wahhabi

16 - 315
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد ہی سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو الہامی تو فیق بخشی کہ وہ اس عظیم الشان کتاب کی کتابت ہمیشہ اسی رسم الخط میں کریں جس میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں کرائی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے متفقہ طور پر اس رسم الخط کو پسند فرمایا اور اپنی منظوری دی اس کے بعد اسی رسم الخط میں اس کی کتابت ہوتی چلی آرہی ہے۔ اسی وجہ سے اس رسم الخط کو رسم عثمانی یا خط عثمانی کہا جاتاہے۔ مسلمانوں نے ہر دور میں قرآنی الفاظ و آیات کی کتابت میں اسی رسم عثمانی کی پابندی کی ہے تاکہ یہ الفاظ کی ظاہری شکل و صورت میں بھی قیامت تک اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے۔ البتہ بعد کے دور میں اعراب کی ایجاد کے بعد آسانی کے لیے زبر، زیر، پیش اور نقطے لگائے گئے لیکن الفاظ کے رسم الخط میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ دور حاضر میں بعض حضرات اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ قارئین کی آسانی کے لیے قرآن کریم کی طباعت موجودہ دور کےرسم الخط پر ہو۔ لیکن میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔ میری اپنی رائے یہ ہے قرآن کو اسی خط عثمانی پر برقرار رکھا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا جو مکمل انتظام کر دیا ہے وہ قیامت تک برقرار رہے اور لوگ یہ جان لیں کہ آج بھی ہم قرآن کو اسی صورت و شکل میں پڑھتے ہیں جس شکل میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا۔ البتہ اگر کوئی استاد طلبہ کی آسانی کے لیے قرآن کی بعض آیتوں کو بلیک بورڈ پر آج کے مروج طریقوں سے لکھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بہ شرطیکہ طلبہ پر یہ بات واضح کر دی جائے کہ قرآن میں ان الفاظ کا املا اس سے مختلف ہے۔ نوٹ:اسی سوال سے ملتا جلتا دوسرا سوال ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی طباعت کسی دوسری زبان کے رسم الخط مثلاً لاطینی وغیرہ میں جائز ہے یا نہیں؟ تاکہ دوسری زبان والے بھی قرآن کی تلاوت آسانی سے کر سکیں پہلے سوال کے جواب کی طرح اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ قرآن کریم کو کسی قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے
Flag Counter