Maktaba Wahhabi

178 - 315
میں تمہارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔‘‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے: "لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ" ’’مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔‘‘ (3)طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق، طلاق شمار نہیں ہوگی ۔ کیونکہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ہے۔ (4)مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ ہو بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔ (5)طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللّٰهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ" ’’اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘ ایک دوسری جگہ فرمایا: "لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ" ’’ بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو۔‘‘ اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیونکہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی
Flag Counter