Maktaba Wahhabi

254 - 315
جان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور یہ حق صرف اللہ ہی کو حاصل ہے کہ وہ کسی کی جان لے۔ جان لینے کی دوسری صورت جو آپ نے لکھی ہے اس سلسلے میں کچھ کہنے سے قبل یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ فقہائے کرام کی اکثریت کے نزدیک مرض کا علاج کرانا شرعاً واجب اور ضروری نہیں ہے بلکہ علماء کے درمیان اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ مریض کا علاج کرانا افضل ہے یا بیماری پر صبر کرنا۔ بعض علماء کے نزدیک بیماری پر صبر کرنا اور علاج نہ کرانا افضل ہے۔ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک عورت سر کے شدید درد میں مبتلا تھی۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور درخواست کی کہ اے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے شفا یابی کی دعاکیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم چاہو تو اپنی بیماری پر صبر کرو اور اس کے بدلے میں جنت کی حق دار بنو اور چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں اور اپنے اس مرض سے نجات پاجاؤ۔ اس عورت نے کہا پھر تو میں اپنی بیماری پر صبر کروں گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام میں بہت سے ایسے بھی تھے جو بیماری کا علاج نہیں کراتے تھے کسی نے ان کا اس بات پر مواخذہ بھی نہیں کیا۔ اگر علاج کرانا واجب ہوتا یہ لوگ ضرور علاج کراتے۔ میری اپنی رائے بھی یہی ہے کہ علاج کرانا واجب نہیں ہے۔ الایہ کہ مرض خطرناک ہو اور علاج کرانے سے شفایابی کے روشن امکانات ہوں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے کہ مرض کی حالت میں خود بھی علاج کراتے تھے اور دوسروں کو بھی علاج کرانے کا مشورہ دیتے تھے۔ البتہ اگر صورت حال ایسی ہو کہ علاج سے شفایابی کے امکانات صفر ہوں تو ایسی صورت میں علاج کرانا نہ ضروری ہے اور نہ مستحب ۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مریض جسے مصنوعی طریقوں سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے ان مصنوعی طریقوں سے زندہ رکھنا شریعت کی نظر میں نہ واجب ہے اور نہ مستحب بلکہ اس کے برعکس اس کا
Flag Counter