Maktaba Wahhabi

257 - 315
انسان اپنی پوری دولت کسی کو عطیہ دے سکتا ہے لیکن اپنا پورا جسم کسی کو عطیہ نہیں دے سکتا یا کوئی ایسا عضو بطور عطیہ نہیں دے سکتا کہ جس کے عطا کرنے سے خود اس کی جان چلی جائے۔ جس طرح کسی مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ دریا میں کود کر کسی ڈوبتے ہوئے انسان کو بچائے یا جلتے ہوئے مکان میں داخل ہو کر کسی شخص کی جان بچائے اسی طرح یہ بھی جائز ہونا چاہیے کہ اپنے جسم کا کوئی عضو عطا کر کے کسی مرتے ہوئے شخص کی جان بچائے۔ آج ہم خون کے عطیہ کو جائز قراردیتے ہیں حالانکہ خون بھی تو انسانی جسم کا ایک حصہ ہے اور بہت ہی اہم حصہ ہے۔ اسلامی شریعت کا اصول ہے کہ بقدر امکان کسی کی مصیبت کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ جبھی تو بھوکوں کو کھانا کھلانا قیدیوں کو رہائی دلانا مریض کا علاج کرانا اور مرتے ہوئے شخص کی جان بچانا شریعت کی نظر میں بڑے نیک اعمال ہیں کسی مسلم کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ کسی شخص کو مصیبت میں دیکھے اور اس کی مدد نہ کرے۔ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی مریض کو کسی انسانی عضو کی اتنی شدید ضرورت ہے کہ اس کے بغیر اس کازندہ رہنا مشکل ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کا گردہ ناکارہ ہوجائے اور اسے گردےکی شدیدضرورت ہے تو ایسی صورت میں کوئی شخص اپنے دو گردوں میں سے ایک گردے کا عطیہ دے کر اس کی جان بچالے تو اس کا یہ عمل باعث اجرو ثواب ہے۔ اگر مال و دولت کا عطیہ باعث اجرو ثواب ہے تو انسانی عضو کا عطیہ اس سے بھی بڑھ کر کار ثواب ہے کیونکہ مال کے بغیر محتاج انسان مر نہیں جائے گا لیکن اس عضو کے بغیر اس کی زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ البتہ انسانی عضو کا عطیہ کرنا چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے: (1)کسی ایسے عضو کا عطیہ جائز نہیں ہے جو جسم میں ایک ہی عد دہو۔ مثلاً دل، کیونکہ اس کا عطیہ دینے کے بعد انسان کے لیے زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ (2)اسی طرح کسی ظاہری عضو کا عطیہ دینا جائز نہیں مثلاً ہاتھ، پیر، آنکھ وغیرہ۔
Flag Counter