Maktaba Wahhabi

259 - 315
اٹھا سکتا ہے اور نہ کوئی اور ۔ ایسی صورت میں اگر کسی ضرورت مند کو اس کا کوئی قابل استعمال عضو عطیہ کر دیا جائے تو کیا یہ نیکی کاکام نہیں ہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ موت کے بعد کسی عضو کے نکالنے سے لاش کی بے حرمتی ہوتی ہے اور لاش کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث شریف ہے: " كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ " (مسند احمد) ’’مردہ کی ہڈی توڑنا زندہ شخص کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔‘‘ ان کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ لاش کی بے حرمتی جائز نہیں ہے لیکن مردہ جسم سے کسی عضو کےنکال لینے سے اس کی بے حرمتی نہیں ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح زندہ شخص کے جسم میں آپریشن کر کے کسی عضو کو نکال لیا جائے تو اس کی بے حرمتی نہیں ہوتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ ہے لاش کا مثلہ بنانا اور اسے مسخ کرنا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ انتقاماً کیا کرتے تھے۔ بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی عضو کے عطیہ کے سلسلے میں کوئی کلام نہیں کیا ہے اور نہ اسے جائز قراردیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سلف صالحین کے نقش قدم پر چلیں۔ ان کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ سلف صالحین کے زمانہ میں اعضاء کی پیوندی کاری کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جب یہ کام ان کے زمانے میں ہوتا ہی نہیں تھا تو اس سلسلے میں بھلا وہ کلام کیسے کرتے؟دور حاضر میں ہم بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو سلف صالحین نے نہیں کیے تھے، کیونکہ ان کے دور میں ان چیزوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ اعضاء کی پیوندی کاری بھی ان چیزوں میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات ذہن نشین کرانی ضروری ہے اور وہ یہ کہ میت کے پورے جسم کا عطیہ جائز نہیں ہے۔ تاکہ شریعت کے حکم کے مطابق میت کی تکفین و تدفین ہو سکے۔
Flag Counter