Maktaba Wahhabi

26 - 315
"بَدَأَ الإِسْلامُ غَرِيبًا ، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ" ’’ اسلام شروع میں اجنبی تھا اور دوبارہ اجنبی بن جائے گا جیسا کہ پہلے تھا پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لیے۔ ‘‘ یہ حدیث اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیا لفظ ’’غربت‘‘ غرابت سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم ہے، انوکھا پن۔ یا لفظ ’’ غربت‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم ہے اجنبیت۔ اگر لفظ ’’غریب‘‘ غربت سے ماخوذ ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام کمزور ہو جائے گا اور اس کا ستارہ غروب ہو جائے گا؟ کیا قرآن و حدیث میں اس بات کے دلائل ہیں کہ اسلام ایک بار پھر طاقتور اور فاتح بن کرابھرے گا جیسا کہ قرون اولیٰ میں تھا۔ جواب:۔ یہ حدیث متفقہ طور پر صحیح اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اس کا ذکر مسلم شریف و سنن ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ اور طبرانی میں بھی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ احادیث جن میں قیامت کی نشانیوں کا ذکر ہوتا ہے یا جن میں آخری زمانے کی علامتیں بیان ہوتی ہیں اکثر پڑھنے والے انہیں پڑھ کر مایوسی کے غارمیں چلےجاتے ہیں سوچتے ہیں کہ اب تو بڑا خراب زمانہ آگیا ہے اور اس پر آشوب زمانے میں معاشرے کی اصلاح کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مایوسی اور بے علمی کی تعلیم دی ہو یا ہمیں یہ سکھایا ہو کہ دنیا میں فساد اور برائیوں کے عام ہو جانے کے باوجود ہم اصلاح معاشرہ کی طرف سے مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں۔ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ہم آخری لمحوں تک بلکہ آخری سانس تک عمل کوشش اور جدو جہد کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ایک مشہور حدیث کا مفہوم ہے اگر قیامت شروع ہو جائے اور ہم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہے جسے وہ لگانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ مرنے سے قبل اسے لگادے۔ قابل غور بات ہے کہ دنیوی
Flag Counter