Maktaba Wahhabi

265 - 315
مکروہ ضرور ہے۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ روح پھونکنے سے قبل جنین اگرچہ بے جان لوتھڑا ہے لیکن آخر کبھی نہ کبھی اس میں روح پھونکی جائے گی اور اسےزندگی عطا ہوگی۔ روح پھونکنے اور جان پڑنے کا وقت کون سا ہوتا ہے۔ اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بخاری و مسلم کی وہ مشہور حدیث، جسے وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں ،کے مطابق جنین کے اندر ایک سو بیس دن کے بعد روح پھونکی جاتی ہے لیکن مسلم شریف کی ایک دوسری صحیح حدیث ہے جسے حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: "إِذَا مَرَّ بِالنُّطْفَةِ ثِنْتَانِ وَأَرْبَعُونَ لَيْلَةً، بَعَثَ اللّٰهُ إِلَيْهَا مَلَكًا، فَصَوَّرَهَا، وَخَلَقَ سَمْعَهَا وَبَصَرَهَا وَجِلْدَهَا وَلَحْمَهَا وَعِظَامَهَا....." ’’نطفہ پر جب بیالیس دن گزرجاتے ہیں تو اللہ اس کےپاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کی صورت گری کرتا ہے۔ اس کے کان آنکھ جلد گوشت اور ہڈیوں کی تخلیق کرتا ہے۔‘‘ یہ ایک لمبی حدیث ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ بیالیس دن گزرنے کے بعد نطفہ ایک انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد اس کے وجود کو ختم کرنا گویا اسے قتل کرنا ہے۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث جس میں ایک سوبیس دن کے بعد روح پھونکنے کی بات کہی گئی ہے اور وہ حدیث جس میں بیالیس دن کے بعد تخلیق کی بات کہی گئی ہے یہ دونوں حدیثیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان دونوں کے درمیان تطابق کی صورت علمائے کرام نے یہ بتائی ہے کہ فرشتے دو دفعہ بھیجے جاتے ہیں ایک دفعہ بیالیس دن کے بعد جنین کی تخلیق اوراس کی صورت گری کے لیے اور دوسری دفعہ ایک سو بیس دن کے بعد۔ اس نئی مخلوق میں روح پھونکنے کے لیے دورحاضر کے کے بعض ماہرین طب کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کے وہ علمائے کرام جو ایک سو بیس دن سے قبل بہ وقت ضرورت اسقاط حمل کو جائز قراردیتے ہیں وہ دراصل اپنے دور کے مجدد علم کی بنیاد پر ایسا کہتے ہیں اگر انھیں دور جدید کی غیر معمولی سائنسی تحقیقات کا
Flag Counter