Maktaba Wahhabi

267 - 315
ہے۔ بسااوقات بچہ صحیح وسالم پیدا ہوا ہے۔ ایسا ہی ایک کیس میری نظر سے گزرا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک شخص نے مجھ سے فتویٰ پوچھا کہ میری بیوی کے پیٹ میں پانچ مہینے کا بچہ ہے اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس میں تخلیقی نقص ہے۔ کیا ہم اس کا اسقاط کرا سکتے ہیں؟ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ اللہ پر بھروسا کریں اور اسقاط نہ کرائیں، کچھ دنوں کے بعد میرے پاس ایک کارڈ آیا جو اس نومولود بچے کی طرف سے تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ میرے محسن! اللہ کے بعد میں آپ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے بچا لیا ورنہ میرے والدین میرا اسقاط کرا کے مجھے پیدائش سے قبل ہی مار ڈالتے۔ اس لیے میری نظر میں طبی معائنے کو حرف آخر سمجھ کر اسقاط کرادینا جائز نہیں ہے۔ (3)اب میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ پیدائش کے بعد آپریشن وغیرہ کے ذریعہ ان تخلیقی عیوب پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ (4)تخلیقی عیوب سے مراد اگر اندھا پن اور بہرہ پن ہے تو یہ ایسے عیوب نہیں ہیں جن کی وجہ سے اسقاط کی اجازت دی جا سکے۔ کتنے ہی ایسے اندھے اور بہرےلوگ گزر چکے ہیں جنھوں نے اس پیدائشی نقص کے باوجود کار ہائے نمایاں انجام دئیے ہیں اور کامیاب زندگی گزاری ہے۔ اور یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے اندھا یا بہراہ پیدا کرتا ہے اسے اس نقص کے بدلے کوئی دوسری غیر معمولی صلاحیت عطا کر دیتا ہے۔ اس لیے اس طرح کے پیدائشی نقائص کی وجہ سے اسقاط کرانا میری نظر میں جائز نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ میری نظر میں صرف ایک ہی ایسی صورت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسقاط نہ کرایا گیا تو ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرایا جا سکتا ہے کیونکہ ماں کی جان بہر حال بچے کی جان سے زیادہ اہم ہے۔(واللّٰه اعلم بالصواب)
Flag Counter