Maktaba Wahhabi

298 - 315
غلط کہہ دیا ہے وہ چیز صحیح نہیں ہو سکتی۔ الغرض جمہوریت کو بہ طور نظام تسلیم کرنے کا مطلب اللہ کی حاکمیت سے انکار نہیں ہے۔ اور نہ عوام الناس کو حاکم مان کر اللہ کے برابر لا کھڑا کرنا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جمہوریت ہی وہ طرز حکومت ہےجس کے ذریعے سے اسلام کے بنیادی سیاسی اصول وقواعد کو عملاً نافذ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ جمہوریت کے مخالفین ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے کو ہی حق بہ جانب سمجھ کر اسے قبول کر لیا جاتا ہے اور اقلیت کی رائے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ گویا حق کا معیار اکثریت ہے نہ كہ قرآن و سنت اور اسلامی شریعت، جب کہ اسلامی شریعت کی روسے حق بات وہ ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہے چاہے اکثریت اس کے خلاف ہو اور غلط بات وہ ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے خواہ اکثریت اس کے حق میں ہو۔ یعنی کسی بات کے حق و ناحق ہونے کا معیار قرآن و سنت ہے نہ کہ اکثریت و اقلیت کا رجحان۔ لیکن یہ اعتراض سراسر بے بنیاد ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوریت میں اکثریت و اقلیت کا رجحان ان باتوں میں معلوم کیا جاتا ہے جن میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے۔ اور یہ باتیں دین کے بنیادی اصول وقواعد سے تعلق نہیں رکھتی ہیں۔ جن امور کے بارے میں قرآن و حدیث کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ صحیح ہیں یا غلط ان میں اکثریت و اقلیت کا رجحان نہیں جانا جاتا ہے۔ بلکہ ان باتوں میں رجحان معلوم کیا جاتا ہے۔ جنھیں ہم اجتہادی معاملات کہتے ہیں ان میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے مثلاً ٹیکسوں کی تعیین کا مسئلہ ٹریفک کے قوانین کے انضباط کا مسئلہ بہت سارے امیدواروں میں سے کسی ایک امیدوار کے انتخاب کا مسئلہ یا ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے بے شمار دنیوی مسائل ہیں جن میں عموماًلوگوں کی رائے مختلف ہو جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان مختلف رایوں میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی معیار تسلیم کرنا ہو گا۔ اس کا سب سے عمدہ معیار یہ ہے کہ اکثریت کو
Flag Counter