Maktaba Wahhabi

61 - 315
آج کے لحاظ سے۔ خلیفہ منصور نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے خواہش ظاہر کی کہ تمام مسلمانوں کو ان کی تصنیف الموطا کا پابند بنادیں تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ امیر المومنین ایسا نہ کیجئے کیونکہ مسلمان مختلف ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کے حالات جدا جدا ہیں اور ان کی ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ تمام لوگوں کو کسی ایک ہی مسلک کا پابند بنادینا یا اجتہاد کادروازہ بند کردینا شریعت کی رو سے ایک غلط عمل ہے کیونکہ یہ عمل قرآن وسنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے خلاف ہے۔ اس طرح کی فکر اس زمانے کی پیداوار ہے۔ جب مسلمانوں میں علمی جہالت اور ہر طرح کی پسماندگی آگئی۔ حنبلی علمائےکرام کہتے ہیں کہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی ایسے عالم او فقیہ کا ہونا لازمی ہے جو اجتہاد کے مرتبہ پر فائزہو۔ اور یہ بات اللہ کی رحمت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ البتہ وہ شخص جو قرآن وسنت اور دوسرے شرعی علوم پر عبور نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ جن مسائل میں اسے علم نہ ہو ان کے سلسلہ میں علمائے کرام کی طرف رجوع کرے اور ان سے سوال کرے کیونکہ خدا کا حکم ہے: "فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ" (الانبیاء:7) ’’ پس علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو۔‘‘ کسی مسئلہ میں علم نہ ہونے کے باوجود کوئی رائے قائم کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا یہ بات جائز ہے کہ کوئی شخص کسی ایک مسئلہ میں حنفی مسلک کا اتباع کرے اور دوسرے مسلک میں شافعی رحمۃ اللہ علیہ یامالکی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض علمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض آرام پسندی اور آسان فتوے کے چکر میں ایسا کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے اور اسے اس بات سے کوئی مطلب نہ ہوکہ اس آسان فتوے کی دلیل مضبوط ہے بھی یا نہیں۔ ایسا شخص گویا اپنے نفس کااتباع کرتا ہے، شریعت کی نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص قرآن وسنت کی دلیل کی بنیاد پر کسی رائے کولائق ترجیح سمجھتا
Flag Counter